آزاد انسان وہ انسان ہوتا ہے جو اپنی نمو اور ارتقا کی
راہ میں حائل رکاوٹوں سے مقابلہ کرتا ہے ، وہ مشکلات اور رکاوٹوں کے آگے
گھٹنے نہیں ٹیک دیتا ۔ اور نہ ہی وہ کسی قسم کی غلامی کو پسند کرتا ہے۔
آزاد انسان کے خیالات ، سوچ، فکر اور حتیٰ کہ اس کا طرز زندگی بھی اس کی
آزادی کا منہ بولتا ثبوت ہوہوتا ہے ایسے انسان کو چاہے پابند ِسلاسل کیا
جائے یا پھر سولی پہ لٹکایا جائے مگر وہ اپنے نظریے اور افکار سے نہیںہٹے
گا ۔ اس موقع پر مجھے سقراط کے وہ تاریخی جملے یاد آگئے جو اس نے اپنی موت
سے کچھ دیر قبل جوری کے سامنے کہے تھے، جب سقراط کو جوری نے سزائے موت
سنائی مگر اس شرط پر اسے معافی دینے کا وعدہ کیا کہ تم اپنے افکار اور
نظریات کو جھٹلا دو، مگر سقراط نے ان کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے وہ تاریخی
جملے ادا کئے جو فلسفے کی کتابوں میں امر ہوگئے اور بعد ازاں ایک ضرب المثل
بن گئے، سقراط نے کہا " اپنے نظریات کو جھٹلا کر میرے زندہ رہنے کا کیا
فائدہ" یہ کہہ کر زہر کا پیالہ پی لیا۔ آزاد خیال انسان جسمانی قید و بند
تو برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے نظریات اور سوچ کو کسی کا پابند نہیں کر
سکتا۔
ایک آزاد خیال انسان چاہے غلامی کے ماحول میں ہی کیوں نہ ہو مگر پنے خیالات
کو کسی کا پابند اور کمزورپڑنےنہیں دیتا، اپنے نظریات سے لوگوں کو متاثر
کرتا ہے اور ان میں شعور پیدا کرتا ہے۔ ایسے ہی لوگ معاشرے میں انقلاب برپا
کرتے ہیں ، لوگوں کو غلامانہ سوچ سے آزاد کرتے ہیں ، یا کم از کم لوگوں میں
امید پیدا کر دیتے ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے
"زندہ انسان وہ نہیں جس کا جسم زندہ ہو بلکہ زندہ انسان وہ ہے جس کی فکر
زندہ ہو، کیونکہ ا نسان اپنی فکر سے ہی زندہ رہتا ہے"
|