استاد کسی بھی تعلیمی سسٹم کا
مرکزی کردار ہوتا ہے اور کسی بھی تعلیمی نظام میں استاد ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت رکھتا ہے ۔اس لیے استاد جتنا کامل ،مکمل ،تجربہ کار ،مخلص اور فن
تدریس کا ماہر ہو گا اتنا ہی وہ فروغ تعلیم اور طلباءکی تربیت اور کردار
سازی میں زیادہ مفید اور موثر کردار ادا کر سکتا ہے ۔اس وقت عصری تعلیمی
اداروں میں استاد اور شاگرد کا تعلق کاروباری اور تجارتی شکل اختیار کر گیا
ہے یہی وجہ ہے کہ استاد اور شاگرد کے مابین ادب واحترام ،عقیدت ومودت اور
اعتماد کا جو رشتہ ہوا کرتا تھا وہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے جبکہ دینی
مدارس میں صورتحال یکسر مختلف ہے ۔مدارس دینیہ میں اساتذہ طلباءکے لیے
آئیڈیل اور مثالی ہستیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ
تربیت اور شخصیت سازی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں ۔اس لیے دینی مدارس
میں اساتذہ کی شخصیت کو محوری حیثیت حاصل ہو تی ہے ۔
مغربی فلسفہ تعلیم اور اسلامی فسلفہ تعلیم وتربیت میں یہی بنیادی فرق ہے کہ
وہاں استاد کی حیثیت اور شخصیت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ ہمارے ہاں
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود یہ
ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اور پھر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم اپنے کردار وعمل اور تعلیم وتربیت کی بدولت انسانیت میں حیر ت
انگیز انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دعا فرمائی تو تربیت وتزکیہ کو بعد میں
اور تعلیم کو پہلے ذکر فرمایا لیکن جب اللہ رب العزت کی طرف سے اس دعا کی
قبولیت کا اعلان ہوا تو اس میں تربیت کو مقدم اور تعلیم کو موخر کر دیا گیا
اس سے معلوم ہوا کہ صرف تعلیم کافی نہیں بلکہ تربیت اشد ضروری ہے لیکن ظاہر
ہے کہ تربیت وہی صحیح معنوں میں کر سکتا ہے جو خود تربیت ،تزکیہ اور تدریب
کے مراحل سے گزرا ہو ۔
مدارس دینیہ میں نوآموز اور نووارد اساتذہ کے لیے تربیت کا سلسلہ تو ہمیشہ
ہی موجود رہا ہے ۔قدیم ،بزرگ ،تجربہ کار اور سینئر اساتذہ کرام ان کی مسلسل
تربیت اور نگرانی کا عمل سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی بڑے اداروں میں
یہ سلسلہ جاری ہے لیکن چونکہ اللہ کے فضل وکرم سے مدارس دینیہ کا کام روز
افزوں ترقی پذیر اور وقت کے ساتھ ساتھ وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے ،
فضلاءکرام کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اکابر اہل علم بڑی
تیزی سے رخصت ہو رہے ہیں اس لیے ایک عرصے سے اس بات کی ضرورت بڑی شدت سے
محسوس کی جارہی تھی کہ اساتذہ کرام کی تربیت کا کوئی اجتماعی نظم تشکیل دیا
جائے اور مختلف اداروں میں بکھرے ہوئے اس کام کو وفاق المدارس العربیہ کی
سطح پر منظم کیا جائے ۔اس وقت چونکہ تعلیم اور تربیت اساتذہ کا موضوع ایک
مستقل شعبے کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔عصری تعلیمی اداروں میں بی ایڈ ،ایم
ایڈ اور تعلیمی امور پر پی ایچ ڈی کا سلسلہ جاری ہے ہمیں الحکمة ضالة
المومن کے تحت اس کام سے بھی استفادہ کرنا چاہیے ۔اس لیے وفاق المدارس کی
مجلس عاملہ نے اس معاملے پر طویل غور وخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ تدریب
المعلمین کو مستقل اور باقاعدہ طور پر مدارس دینیہ کے نظام میں رائج کیا
جائے گا ۔
تدریب المعلمین کے حوالے سے ابھی ابتدائی غور وفکر اور مشاورت کاسلسلہ جاری
تھا کہ اسی اثناءمیں حسنِ اتفاق سے مختلف تعلیمی اور فکری موضوعات پر کام
کرنے والے تحقیقاتی ادارے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں مدارس دینیہ کے
حوالے سے ایک نشست کا انعقاد ہو ا۔اس نشست میں تدریب المعلمین کا موضوع زیر
بحث آیا ۔ اسلام آباد سے مولانا ظہور احمد علوی ،مولانا عبدالغفار سمیت
علماءکرام کی بڑی تعداد ،ماہرین تعلیم ،عصری اداروں اور وزارت تعلیم کے
وابستگان بھی شریک ہوئے ۔آئی پی ایس کے چیئرمین پروفیسر خورشید اور آئی پی
ایس کے ڈائریکٹر خالد رحمن نے میزبانی اور انتظامات کے فرائض سرانجام دئیے
۔اس نشست میں جو تجاویز سامنے آئیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
دینی مدارس میں تدریب المعلمین کے حوالے سے بنیادی طور پر تین پہلوؤں پر
توجہ دی جائے
(۱)دینی مدارس کے سینئر اساتذہ جو ٹرینرزیعنی تربیت کنندگان کا کردار ادا
کریں
(۲)دینی مدارس کے فضلاءکے لیے مختصر دورانیے یعنی تقریباً چالیس دن پر
مشتمل کورس تیار کیا جائے اور یہ کورس دورہ حدیث کے شرکاءکے لیے لازمی ہو
جب تک جدید فضلاءیہ کورس نہ کر لیں ان کو وفاق المدارس کی طرف سے سند جاری
نہ کی جائے ۔
(۳ )طویل دورانیے کا کورس جو ایک سال پر مشتمل ہو اور اختیاری ہو ۔اس کورس
کے شرکاءکو باقاعدہ وظیفہ دیاجائے ۔
٭....ان کورسز میں شرکت کرنے والوں کو وفاق المدارس کی طرف سے باقاعدہ
سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس سرٹیفکیٹ کو
آئینی طور پر اور سرکاری سطح پر تسلیم کروایاجائے تاکہ وہ مستقبل میں ان
فضلاءکے کام آسکے۔
٭....بتدریج یہ ماحول بنایا جائے کہ جو عالم دین یہ کورس نہ کرے اسے مسند
تدریس پر فائز ہونے کی اجازت نہ دی جائے ۔
٭....چونکہ وفاق المدارس کا نیٹ ورک پورے ملک میں ہے اس لیے ابتداءایسے
حضرات کو تیار کیا جائے جو اپنے اپنے علاقے میں تربیت اساتذہ کی ذمہ داری
سرانجام دے سکیں ۔
٭....چونکہ اب فاضلات کی تعداد فضلاءکے مقابلے میں زیادہ ہو گئی ہے اس لیے
شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فاضلات اور معلمات کے لیے بھی ایسے
کورسز تیار کیے جائیں۔
٭....ان کورسز کی تیاری کے لیے ماہرین تعلیم ،عصری اداروں کے اساتذہ اور
دیگر اہل فن سے بھی تعاون لیا جائے اور ان کی وہ آزاءوتجاویز اور و ہ کام
جو ہمارے مقاصداور مزاج سے ہم آہنگ ہو اسے بلاتردد اپنایا جائے ۔
اس کے علاوہ بھی کچھ تجازیر سامنے آئیں جن پر غور وخوض کا عمل جاری ہے
۔قارئین کو اس تمام پس منظر اور آراء و تجاویز سے آگاہ کرنے کا مقصد یہ ہے
کہ اس حوالے سے اگر کسی کے ذہن میں کوئی تجویز ہو ،اس کام کی بہتری کے لیے
کوئی رائے ہو تو وہ اسے ضرور پیش کرے اسی طرح اس حوالے سے اگر کوئی مواد جن
احباب کے پاس موجود ہو یا اس موضوع سے متعلق کوئی مہارت ہو تو وہ ضرور
مدارس دینیہ کی بہتری اور آنے والی نسلوں کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کے
لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ |