مدارس کی بنیاد حقیقی معنیٰ میں
مسجد نبوی کے صحن میں قائم” صفہ “کے چبوترے سے ہی پڑی جہاں پر صحابہ کو دین
کی تعلیم دی جاتی تھی۔ آج جو دنیا میں مدارس قائم ہیں یہ دراصل مسجد نبوی
کے چبوترے میں قائم” صفہ “کا تسلسل ہے۔ دنیا میں اس وقت ہزاروں نہیں لاکھوں
مدارس کام کررہے ہیں جن کی اکثریت انفرادیت کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار
ہیں۔ ماضی میں جب اسلامی ریاستیں موجود تھیں حکومتی سطح پر ان مدارس اور
دینی اداروں کی سرپرستی کی جاتی تھی جہاں سے وقت کے عظیم مفکر، مجدد، معلم،
مدرس، سائنسدان، فقیہ، قرائ، حکمران اور دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں
نمایاں کردار ادا کرنے والے لوگ پیدا ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جب سائنس
کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو چند سو سال قبل تک سائنسدانوں میں صف اول میں
ہمیں مسلمان سائنسدان ہی نظر آتے ہیں جو عصری علم وحکمت کے ساتھ ساتھ دینی
علوم سے بھی سرشار تھے لیکن جب اسلامی ریاستوں کو زوال آیا تو اسلام دشمن
قوتوں نے سب سے پہلا حملہ انہی علمی اداروں پر کیا جس کے بعد انگریز کے
تسلط کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب دینی علوم کا اس دنیا سے خاتمہ ہوگا۔
مگر وقت کے جید علماء نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مدارس کو ایک نئی شکل
میں قائم کیا۔ حالات کی مناسبت سے ساری توجہ دینی علوم کی طرف رہی کیونکہ
اسلام دشمن قوتوں کا نشانہ بھی دینی علوم ہی تھے۔
اگر کہا جائے کہ منظم انداز میں اس کام کی ازسر نو بنیاد دہلی کے ایک چھوٹے
سے مدرسے سے مولانا مملوک علی کے ہاں تعلیم حاصل کرنے والے طالب عالم
مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دیوبند کے مقام پر ایک درخت کے نیچے بنیاد
رکھی جس کو آج دنیا دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اسی
مدرسے میں ان کے ساتھ ہی تعلیم حاصل کرنے والے ایک اور طالب علم سرسید احمد
خان تھے جنہوں نے دینی مدارس کے بجائے اپنی توجہ عصری علوم کی طرف دی اور
آج مسلمانوں میں عصری علوم کی طرف جو توجہ ہے اس کے اصل بانی سرسید احمد
خان ہیں۔ ان دونوں طالب علموں کی کوششیں اپنی اپنی جگہ لیکن مولانا محمد
قاسم نانوتوی کے جذبہ اخلاص کا یہ نتیجہ نکلا کہ مدارس کی بنیاد پوری دنیا
تک پھیل گئی اور آج دنیا میں اس ادارے کے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض یاب
لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جبکہ مدارس کی تعداد لاکھوں میں نہیں تو
ہزاروں میں ضرور ہے۔ آج بھی مدارس اپنا محور اور مثال دارالعلوم دیوبند کو
ہی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ دیگر مکاتب فکر کے مدارس بھی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن
جس منظم انداز میں دیوبند مکتبہ فکر کے مدارس دنیا میں کام کررہے ہیں اس کی
مثال ہی نہیں ملتی ہے۔ بھارت میں آج بھی اکثر مدارس اگرچہ انفرادی طور پر
کام کررہے ہیں لیکن وہ بغیر کسی قانونی قید یا شرط کے دارالعلوم دیوبند کو
ہی اپنا رہنما سمجھتے ہیں اور دارالعلوم کے اصولوں پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بھی مدارس کا آغاز ہوا اور 1958ءتک مدارس
انفرادی حیثیت میں کام کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کو کئی مسائل کا سامنا
کرنا پڑا اور ان کی تعلیمی حیثیت کو بھی حکومتی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا
تھا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے علماءنے مدارس کی بنیاد پر ایک منظم تنظیم قائم
کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے سب سے پہلا اجلاس 19 اکتوبر 1958ءکو جامعہ
خیر المدارس ملتان میں مولانا خیر محمد جالندھری کی صدارت میں ہوا جس میں
اس بات کا حتمی فیصلہ کیا گیا کہ مدارس کو منظم کرنے کےلئے وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر
کے ہزاروں مدارس اس وفاق کا حصہ بن گئے۔ چند سال بعد اس وفاق نے باقاعدہ
ایک بورڈ کی شکل اختیار کی اور ملکی سطح پر اس کے تحت مختلف درجات کے
امتحانات ہونے لگے۔ سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے دور میں وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کی اسناد کو مختلف عصری ڈگریوں کے مساوی قرار دیا گیا۔
عالم فاضل کی ڈگری کو ایم اے کے مساوی قرار دیا گیا جس سے مختلف سرکاری
وغیر سرکاری اداروں میں ہزاروں علماءکو ملازمتوں کی سہولیات ملیں اور
درجنوں علماءنے حکومتی ایوانوں تک پہنچنے کےلئے انہی اسناد کا سہارا لیا۔
اگرچہ سابق آمر پرویز مشرف نے اپنے دور جبر میں ان اسناد کی حیثیت کو ختم
کرنے کےلئے بڑے پیمانے پر کوشش کی لیکن علماءکے اتحاد ویکجہتی اور جدوجہد
نے اس آمر کو ناکامی سے دوچار کردیا۔وفاق المدارس کا پوراا نظام مجلس عاملہ
کے تحت چلتا ہے ارکان کی تعداد27ہے اور تمام فیصلے یہی مجلس کرتی ہے جس کے
سربراہ وفاق کے صدر شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان ہیں اور ناظم
اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری ہیں مجلس کے باقی ارکان بھی ملک کے ممتاز
علماءہیں ۔
پاکستان میں اگرچہ اس وقت دیگر مکاتب فکر کے چار دیگر وفاق بھی اپنی اپنی
جگہ کام کررہے ہیں جن میں تنظیم المدارس پاکستان، وفاق المدارس سلفیہ،
رابطة المدارس پاکستان اور وفاق المدارس الشیعہ شامل ہیں۔مگر وفاق المدارس
العربیہ کو ان سب کے مقابلے میں مجموعی طور پر یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا
اپنا مضبوط اور مربوط نیٹ ورک نہ صرف منظم انداز میں قائم ہے بلکہ انتہائی
متحرک بھی ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق ملک کے پانچوں وفاق کے 20 ہزار
کے قریب مدارس اپنے وفاق کے تحت رجسٹرڈ یا ملحق ہیں۔ ان میں سے 14 ہزار سے
زائد وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو
تہائی سے زائد مدارس صرف وفاق کے تحت کام کررہے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ
پاکستان نے پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا، وفاقی
دارالحکومت اور پاٹا میں اپنا مضبوط نیٹ ورک بنایا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے
مطابق سال 2011ءمیں تمام وفاقوں کے زیر انتظام مختلف درجات کے امتحان دینے
والے طلباءوطالبات کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے جن میں سے صرف وفاق
المدارس العربیہ پاکستان کے تحت امتحان دینے والے طلباءوطالبات کی تعداد 2
لاکھ 12 ہزار 122 ہے جن میں 97 ہزار 422 طالبات ہیں اور باقی چاروں وفاق کے
ایک لاکھ 60 ہزار طلباءوطالبات بتائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تمام
وفاق ہائے مدارس دینیہ کے تحت کام کرنے والے مدارس میں زیر تعلیم طلباءکی
مجموعی تعداد 10 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں سے 6 لاکھ سے زائد صرف
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت قائم مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ ایک
اندازے کے مطابق سالانہ عالم فاضل سے فراغت حاصل کرنے والے تمام مدارس کے
طلباءوطالبات کی مجوعی 35 ہزار کے قریب ہے جن میں سے 22 ہزار کے قریب وفاق
المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سال وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے تحت مجموعی طور پر 2 لاکھ 12ہزار 122 طلباءوطالبات مختلف درجات
اور حفظ قرآن میں امتحانات دے رہے ہیں جن میں ایک لاکھ 14 ہزار 700 طلبائ،
97 ہزار 422 طالبات ہیں۔ وفاق کے تحت تحفیظ القرآن کے امتحانات میں 57 ہزار
369 طلباءوطالبات نے امتحان میں حصہ لیا جن میں سے 44 ہزار 119 طلبائ، 13
ہزار 250 طالبات ہیں2جولائی سے شعبہ کتب کے سالانہ امتحانات کا سلسلہ شروع
ہو چکاہے جس کے تحت متوسطہ (مڈل) کے تحت 11 ہزار 654 طلباءوطالبات جن میں
سے طلبہ 11619 اور طالبات 635، ثانویہ عامہ (میٹرک) میں 50 ہزار 603 جن میں
طلباء18449 طالبات 32154، ثانویہ خاصہ (ایف اے) میں 34151، جن میں طالبات
21172 طلبہ 12979، عالیہ (ایف اے) میں 25007 جن میں طالبات 15938
طلباء9069، موقوف علیہ (B.A) میں طلباء8809، عالمیہ (ایم اے) 21565 جن میں
طلباء8286 طالبات 13279 اور شعبہ دارسات میں 2964 طلبا و طالبات امتحان دے
رہے ہیں جن میں 1370 طلباءاور 1594 طالبات2 جولائی 2011ءسے وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کے تحت شروع ہونے والے سالانہ امتحانات (جو7 جولائی تک
جاری رہیں گی)میں شامل ہونگے۔ جب کہ تحفیظ القرآن کے سالانہ امتحانات 13
جون سے 30 جون 2011 تک پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ
کے تحت سال 2011 ءمیں تحفیظ القرآن کے لیے جدید امتحانی طریقہ استعمال کیا
گیا جس میں شفافیت کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا۔ جبکہ کراچی میں تحفیظ
القرآن کے امتحانات کا پورا نظام کمپیوٹرائز کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کراچی
کے شعبہ حفظ کے نگراں مولانا طلحہ رحمانی اور مولانا عمار خالد کا کہنا ہے
کہ وفاق المدارس کی انتظامیہ نے آئندہ سے پورے نظام کو پورے ملک تک
کمپیوٹرائز کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ہم نے کراچی میں کمپیوٹرائزڈ
امتحانی طریقہ استعمال کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس سال مجموعی طور
پر شعبہ کتب کے لیے 1260 امتحانی مراکز قائم کیے گئے جن میں سے طلباءکے لیے
414 اور طالبات کے لیے 846 اسی ترتیب سے نگران اعلیٰ کا تقرر ہوا ہے۔ جبکہ
معاون نگران کی مجموعی تعداد 6190 ہے جن میں خواتین معاونین 3367 اور مرد
معاونین 2823 ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد
حنیف جالندھری کے مطابق تمام امتحان کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں اور
شیڈول کے مطابق ان شاءاللہ امتحان کے تمام مراحل پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔
|