رکوڈک ۔۔۔ چہ ارزاں فروختند

بلوچستان اس وقت بہت ساری سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے بظاہر پاکستان کے بلحاظ رقبہ اس سب سے بڑے صوبے کا ایک بڑا حصہ بہت بڑے بڑے دشتوں اور صحراؤں پر مشتمل ہے۔ زیر زمین اور بالائے زمین پانی کی کمی بڑے شہروں اور بڑی بستیاں آباد نہ ہونے کی سب سے بڑے وجہ ہے ۔جہاں تھوڑا بہت پانی میسر آیا وہاں چھوٹی سی آبادی آباد ہو گئی ۔ ہاں جہاں پانی موجود ہے وہاں سر سبز باغات بھی نظر آتے ہیں یوں قدرت اپنے پودے تنوع کے ساتھ یہاں نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے لق و دق اور بے آب و گیاہ صحرا اپنے سینے میں جو دولت سمیٹے ہوئے ہیں اُسی نے اس کو سازشوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے ۔ بڑی طاقتیں دنیا کی تمام دولت پر نظریں گاڑھے پنجے گاڑھنے کی منتظر ہیں۔ ایک طرف تیل اور توانائی کے ذخائر کو اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کے لیے ہتھیانے کی فکر اور کوشش ہے تو دوسری طرف سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کو قبضے میں لے کر باقی دنیا کو کنگلا کرنے کی خواہش ، تاکہ ساری دنیا اُن کی محتاج ہو کر غلام بن جائے ۔ اس کوشش میں تمام بڑی طاقتیں بشمول بھارت اور اسرائیل مصروف ہے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ان کی دلچسپی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ سینڈک کے بعد رکوڈک میں قیمتی معدنی ذخائر نے ان کی آنکھیں چند ھیائی ہوئی ہیں ۔ رکوڈک ضلع چاغی میں ایران افغان سرحد کے قریب سونے اور کاپر کے عظیم الشان ذخائر ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ یہ ذخائر ایران کے سرچشمہ اور چلی کے ایسکنڈیڈا ﴿Escondida﴾ کے ذخائر سے بڑے ہیں۔ یہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق 12.3 ملین ٹن کاپر یا تانبا اور 20.9 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

قیمتی معدنیات کے یہ ذخائر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں لیکن پاکستان کی واحد بد قسمتی یہاں کے خود غرض حکمران ہیں اور اس بار بھی یہی ہوا کہ رکوڈک کو بیچ دیا گیا اور بہت سستا بیچا گیا اور بدنام زمانہ بیرک گولڈ کو بھی اس میں حصہ دار بنایا گیا ،اور حیرت ہے کہ اس سودے پر حکومت نے تو جو کیا وہ کیا ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں ، آئی ایس آئی اور فوج بھی خاموش رہی حالانکہ کم از کم یہو دی کمپنی کے ملک میں داخلے پر ان اداروں کو نوٹس تو لینا چاہیے تھا لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا یہ سوال بھی جواب طلب ہے۔ یہ کمپنی دنیا میں مائننگ کے میدان میں سب سے ناکام ترین کمپنیوں میں سمجھی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا ہونا ہی ہے کیونکہ یہ صیہونی کمپنی اپنے دیگر بہت سارے مقاصد لے کر کسی ملک میں داخل ہوتی ہے صرف مائننگ پر اس کی توجہ نہیں ہوتی پاکستان کے بارے میں یہودیوں اور صیہونیوں کے جو خیالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن پرویزمشرف اور شوکت عزیز نے اس یہودی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر گریگ والکنز کے بقول اس کا 2007 میں اسلام آباد میں پر جوش استقبال کیا ۔ جس کے مطابق اُس کی کمپنی القائدہ کے خطرے کے باوجود پاکستان میں مزید پراجیکٹس لینے کی خواہش مند ہے۔ ظاہر ہے اُنہیں اپنے کارندے پاکستان میں داخل کرنے ہیں اور اس زمین کی رگوں میں موجود قیمتی خون بھی چوسنا ہے اور کمپنی کے سنیئر نائب صدر وائنس بورگ نے تسلی ظاہر کی کہ ان کا عملہ اسلام آباد میں محفوظ ہے یعنی انہیں مکمل سیکیورٹی اور گارنٹی دی گئی جو نہ اُس وقت کسی پاکستانی کو تھی اور نہ اب ہے۔ یوں صرف ذاتی مفاد اور خواہش میں اس کمپنی کو ملک میں آنے دیا گیا جس کی آڑ میں موساد جیسی ایجنسی کے جاسوس ملک میں آسکتے ہیں۔ جس کی ہٹ لسٹ میں پاکستان اہم ترین نشانوں میں سے ایک ہے لیکن ملکی مفاد کو بیچنا پاکستانی حکمرانوں کے لیے کبھی مشکل نہ رہا۔

دوسرا حملہ جو ملکی مفاد پر کیا گیا وہ یہ کہ بلوچستان حکومت کو صرف 25% حصہ دیا گیا جو اسے 25% رقم خرچ کرنے کے بعد ہی ملے گا یعنی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ اُسکی زمین خزانے کی مالک ہے۔ ٹیتھیان کا پر کمپنی اس معاملے میں کسی شراکت کی قائل نظر نہیں آتی ۔یہی وجہ ہے کہ اُس نے یہ منصوبہ بنا رکھا ہے کہ بجائے پاکستان میں یہ معدنیات نکالنے کے خام حالت میں اس مواد کو باہر لے جایا جائے گا اور وہاں اس سے تانبا اور سونا نکالا جائے گا اور اس کے لیے گوادر کی بندرگاہ استعمال کرنے کی بجائے ایک چھوٹی بندرگاہ تعمیر کی جائے گی جو گوادر سے تیس کلومیٹر کراچی کی طرف ہوگی ۔ اس کے لیے کمپنی نے بلوچستان لبریشن آرمی سے ایک اچھی خاصی رقم کے بدلے یہ تحفظ مانگا ہے کہ وہ کمپنی کی ٹرانسپورٹ اورسپلائی لائن پر حملہ نہیں کرے گی۔ ان تمام اقدامات سے منصوبے کی قدروقیمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جو بندرگاہ تعمیر کی جائے گی وہ حکومت پاکستان کی مدد کے بغیر ہو گی لہٰذا اُس میں حکومت کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوگی اور برصغیر ایسی اجازت کا خمیازہ ا یک بار بھگت چکا ہے اور وہ ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے لہٰذا انتہائی احتیاط انتہائی ضروری ہے اس منصوبے کی جو قیمت لگائی گئی ہے وہ پچیس بلین امریکی ڈالر ہے جبکہ اس کی اصل قیمت جو اس سے حاصل کئے جانے والے مواد کی ہوگی اس کا اندازہ 125 بلین امریکی ڈالرز کا ہے حکومت کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے اور دونوں بیرونی کمپنیوں یعنی کینڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی اینٹا فوگسٹا سے معا ہدے کی شرائط پر انتہائی باریک بینی سے نظر ثانی کرنی چاہیے اور منصوبے کی اصل قدر و قیمت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی قیمت لگانی چاہئے اور ان کمپنیز کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ مقامی سطح پر خام مال سے معدنیا ت حاصل کریں تاکہ یہ مہارت مقامی لوگوں کو منتقل کی جاسکے اور مستقبل میں کم از کم چھوٹے منصوبوں پر ہی سہی مقامی ماہرین کام کر سکیں۔

رکوڈک، سینڈک، تھرکول، چمالانگ اور ایسی بے شمار دولت قدرت نے پاکستان کو عطا کی ہے جواِ س ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن اس کے لیے حکمرانوں اور دیگر کرتا دھرتا لوگوں کا خلوص چاہیے۔ حکومتی فیصلے خود اہل حکومت کے لیے نہ ہوں بلکہ ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں ہوں۔ بیرونی اداروں او ر کمپنیز کے ساتھ معاہدوں پر کسی کو اعتراض نہیں کیونکہ کسی بھی ملک میں ہر مہارت کا موجود ہونا مشکل ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ ناکام اور بدنام کمپنیز کو ٹھیکے دیئے جا ئیں اور اس بات کا تو خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کون آپ کے ملک کو نقصان پہنچانے کی نیت لے کر آپ کے ہاں آتاہے ۔ یہودی از روئے قرآن ، از روئے تاریخ، از روئے حال، اور ازروئے عمل ہر طرح سے ہمارے دشمن ہیں ان کا مقصد دنیا میں اپنی حکومت اور دوسرے کی محکومی ہے ۔ اگر گزشتہ حکومت نے انہیں پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی بھی تو کیا موجودہ حکومت اُس اجازت پر نظر ثانی نہیں کر سکتی۔ منصوبے کی اہمیت اور قیمت کا اندازہ لگانا بھی بہت ضروری ہے اور مقامی ماہرین سے بھی استفادہ ضروری ہے کیونکہ ان کا حق پہلا ہے ۔ ہم جب بعد میں اپنے ہی ملک میں موجود خام مال کی مصنوعات انتہائی مہنگے داموں بے تحاشا ٹیکسوں کے ساتھ بر آمد کرتے ہیں تو پہلے ہی کیوں اپنے خام مال سے فائدہ نہیں اٹھا لیا جاتا۔ معاملہ صرف ذات کے خول سے نکل کر ملکی مفاد کو عزیز تر سمجھنے کا ہے اور پاکستانی قوم کسی ایسے ہی رہنما اور مسیحا کے انتظار میں ہے جو اس کے قبلے کو درست کر سکے اور اسکے دردلادوا کا علاج کر سکے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.