میری خواہش ہے کہ اتنے پیسے جمع کروں کہ دنیا گھوم سکوں مگر دنیا کہتی ہے شادی کرو گھر بساؤ ۔ ایک تیس سالہ مرد کی زندگی کے دکھ

image
 
کل میری سالگرہ ہے میں جانتا ہوں کہ آج رات بارہ بجے میرے دوستوں نے میرے لیے سر پرائز پارٹی ارینج کر رکھی ہے۔ ان کو یہ لگتا ہے کہ مجھے اس پارٹی کے بارے میں نہیں پتہ جب کہ حقیقت میں گزشتہ تیس سالوں میں ہر سال میرے قریبی لوگوں میں سے کوئی نہ کوئی ایسی سرپرائز پارٹی مجھے دیتا رہا ہے مگر اس بار مجھے اس پارٹی کی کوئی خوشی یا ایکسائٹمنٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے-
 
تیس سال کی عمر کے مرد پر بھی معاشرے کا دباؤ
 ایک بچے کو معاشرہ اگر صحیح یا غلط سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ وہ بچہ ناسمجھ ہے لیکن ایک تیس سال کی عمر کے میچور مرد کی زندگی کے طریقے کا فیصلہ بھی اگر معاشرے نے ہی کرنا ہے تو پھر اس کے اتنے سالوں کا کیا فائدہ؟
 
یہ وہ سوال تھے جنہوں نے میری سالگرہ والے دن بھی میرے موڈ کو خراب کر دیا تھا لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں اور میں کیا کرنا چاہتا تھا -
 
تیس سال کے ہو گئے ہو شادی کر لو
 جو بھی ملتا ہے ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ اب تک شادی کیوں نہیں کی۔ اگر اچھا کما رہے ہو نوکری ہے تو پھر اس طرح کی زندگی کا کیا فائدہ کسی ایک کھونٹے سے بندھ جاؤ۔ لیکن کوئی ایک میچور مرد سے یہ پوچھنے کی زحمت کیوں نہیں کرتا کہ کیا اب تک تمھیں کوئی ایسی شریک حیات ملی ہی نہیں جس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر سکو- یا پھر دنیا میں شادی سے زیادہ ضروری بھی کچھ کام ہیں اگر کوئی سمجھے تو-
 
image
 
تیس سال کی عمر میں نے یہ گھر لے لیا تھا
تیسویں سالگرہ اس وجہ سے بھی بہت خطرناک ہوتی ہے کیوں کہ اس دن ہم سے بڑے بزرگ ہمارا کاندھا تھپتھپا کر شاباشی دینے اور مبارکباد دینے کے بجائے ہمارے سامنے اپنی کامیابیوں کی لسٹ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں-
 
جب ہم تیس سال کے تھے تو اپنا گھر، گاڑی خرید چکے تھے ۔ دو بیٹوں کے باپ تھے ۔ جرگوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ خاندان والے اپنے فیصلوں کے لیے بٹھایا کرتے تھے۔ مگر تم نے اب تک کچھ نہیں کیا اب ان کو کون بتائے کہ اپنے پروفیشن میں ہم بھی کامیاب ہیں۔ لیکن خاندانی سیاست میں دخل لینے کا شوق نہیں اس وجہ سے جرگوں میں نہیں بیٹھتے ہیں۔ اور جب ابو کا گھر موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے گھر پر پیسے خرچ کرنے کی ان پیسوں سے میں دنیا کی سیاحت کیوں نہ کر لوں-
 
تیس سال کی عمر میں کون پڑھتا ہے
ماضی میں جب دنیا والے ایک ڈگری کو ہی تعلیم کی تکمیل سمجھتے تھے اور ان کی ساری تعلیم شادی سے قبل ہی ہوتی تھی ایسے وقت میں ان کو اب یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ تیس سال کے بعد بھی اپنے شعبے میں مزید کامیابی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جا سکتا ہے-
 
image
 
یہ کم عمر لڑکوں کی طرح یاریاں پالنا چھوڑو
جس طرح محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی ہے اسی طرح میرا ماننا ہے کہ دوستی کی بھی کوئی عمر نہیں ہوتی ہے اور انسان اپنے ہم مزاج لوگوں اور دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر زیادہ سکون محسوس کرتا ہے-
 
مگر ہمارے معاشرے میں تیس سال کے فرد کے لیے دوستیاں نبھانا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ نوجوان لڑکوں کی طرح دوستیاں اور پارٹیاں کرنا چھوڑ دو اب سنجیدہ ہو جاؤ-
 
تیس سال کی عمر کا کیک کاٹتے ہوئے انسان کو ایک شرمندگی کا احساس ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ کیسے بچوں کی طرح کیک کاٹ رہا ہوں اور یہی معاشرے کا بھی نظریہ ہوتا ہے کہ اگر آپ تیس سال کے ہو گئے ہیں تو آپ کو شوخ رنگ کےکپڑے نہیں پہننے چاہئیں۔ زور سے ہنسنا نہیں چاہیے، تیز میوزک نہیں سننا چاہیے۔ کاروبار پر توجہ دو اور اب سنجیدہ ہو جاؤ یہ وہ نصیحت ہے جو ہر ایک کو تیسویں سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے سننی پڑتی ہے-
 
یاد رکھیں !
انسان کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی وہ محسوس کرتا ہے۔ لوگوں کو ان کی عمر کا بار بار احساس دلانا مناسب نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ آپ کو پسند ہو وہ ان کو پسند نہ ہو اس وجہ سے ہر انسان کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق ملنا چاہیے-
YOU MAY ALSO LIKE: