ضلع چکوال ،پولیس کے نرغے میں؟؟

 چور اور ڈاکو سے تو تحفظ کسی نہ کسی طرح ممکن ہے کہ نظر آ رہاہوتا ہے کہ یہ چور ہے ڈاکو ہے اچکا ہے جو دستیاب ہتھیار پاس ہو گا آزمایا جاے گا ،آر یا پار والا معاملہ جان بچائی جائے یا مال،مال بچایا تو جان جاے گی سو اکثر مال دیکر جان بچا لی جاتی ہے اور پھر باقی مال اگر کچھ بچ جاے کی بچت کے لیے تھانے کچہری کے چکروں کے بجائے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ،لیکن اگر معاملہ ہی الٹ ہو یعنی چوکیدار ہی لٹیرا بن جائے تو کیسا تحفظ اور کیسی حفاظت،اب ایک ہی راستہ ایک ہی حل باقی بچا ہے کہ ہر وقت اﷲ سے عافیت مانگی جائے ،کبھی سندھ پولیس کے قصے سنائے جاتے تھے مگر اب ہم بھی سندھ والوں سے کم نہیں ،آج سے تقریبا ڈیڑ ھ ماہ قبل تلہ گنگ روڈ پر وقع ایک فارمیسی کے باہر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک سفید کیری وین آکر رکتی ہے تین مسلح افراد نیچے اترتے ہیں دکان کے اندر جا کر گن پوائنٹ پر ایک نوجوان کو ساتھ لے جاتے ہیں ،نوجوان جب گھر نہیں پہنچتا تو اگلے دن اسکے لواحقین تھانے میں گنشدگی کی رپورٹ درج کروا دیتے ہیں ، نوجوان پر نجی ٹارچر سیل میں بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے(واضح رہے ایسے نجی ٹارچر سیل ہر چھوٹے بڑے تھانیدار نے شہر کے مختلف علاقوں میں قائم کر رکھے ہیں ) اور دو چار دن بعد شدید زخمی حالت میں ایک ویران قبرستان میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں سے کسی راہگیر نے ون ون ٹو ٹو کو اطلاع دی جنہوں نے زخمی کو ہسپتال منتقل کیا جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا،ایف آئی آر درج ہو تی ہے اور جب جیو فینسنگ کی رپورٹ آتی ہے تو اغوا کنندگان میں پنجاب پولیس کا ایک نکا تھانیدار بھی شامل ہوتا ہے اور جب اسے شامل تفتیش کیا جاتا ہے تو ایک اور نکا تھانیدار اپنے پیٹی بھائی کو صاف بچا لینے میں تقریبا کامیاب ہو ہی چکا تھا مگر شومئی قسمت کے ڈی پی او چکوال نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیکر دونوں تھانیداروں کو اسی تھانے کے لاک اپ میں بند کر دیا جس میں وہ تعینات تھے اس کے بعد کیا بنا ابھی تک ہمیں اس کا علم نہیں ایک اور واقعے میں سید زادہ ایس ایچ او ایک علاقے میں چھاپہ مارتا ہے بعد ازاں ملزمان سے مک مکا کیا جاتا ہے یہ معاملہ بھی ڈی پی او کے نوٹس میں آتا ہے تو یہاں بھی شاہ جی اور ان کے ایک معتمد خاص کی چھٹی کروا دی جاتی ہے اس کے بعد ایسا ہی ایک ملا جلا واقعہ تلہ گنگ میں پیش آتا ہے جہاں دونکے تھانیدار فارغ کیے جاتے ہیں ، تلہ گنگ شہر کا ایک تاجر تھانے کے اندر سے غائب ہوتا ہے یا کر لیا جاتا ہے جس کے اہل وعیال الزام پولیس پر لگاتے ہیں پولیس صاف انکار کر دیتی ہے سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود تین ہفتے ہونے کو ہیں تاجر کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کوئی سر پیر کسی کے ہاتھ نہیں آرہا ،دوسری طرف چکوال میں پیش آنے والے واقعات کے بعد ایک بھرپور سٹنگ آپریشن کے بعد ڈی پی او چکوال سٹی تھانے میں ایک اور بظاہر دبنگ قسم کے ایس ایچ کو تعینات کرتے ہیں جو محض چند دن بعد ہی اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دبنگ ہی کاروائی کرتے ہوئے جوئے کی محفل الٹ دیتا ہے اور اپنے ایک ساتھی تھانیدار کے ہمراہ وہیں پر جواریوں سے مک مکا کر کے اپنا حصہ کھر اکے ان کے کھیل میں مخل ہونے پر معذرت کرلیتا ہے یہ معاملہ بھی ڈی پی او کے نوٹس میں آ گیا اور ادھر بھی رنگ میں نہ صرف بھنگ پڑ گئی بلکہ الٹا رنگ والی ساری بالٹی ہی الٹ گئی ایس ایچ او صاحب بہادر سمیت دو وڈے تھانیدار پکے پکے گھر بھیج دیئے گئے، ،عید سے دو روز قبل تلہ گنگ تھانہ صدر سے ایک کاکا سپاہی سر شام اپنے دو تین ساتھیوں سمیت ون ٹو فائیو موٹر سائیکل پر سول کپڑوں میں شکار کی تلاش میں نکلتا ہے عیدی مہم پر سیدھا ٹہی پہنچتا ہے مگر جہاں منشیات بیچی خریدی جا رہی وہاں نہیں جاتا اس سے تھوڑ ا دور ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ جما کر کھڑا ہو جاتا ہے ماڑے اور مسکین قسم کے آنے جانیوالے بندوں کی جامہ تلاشی اور دھمکی دھونس کے ذریعے اپنا مال پانی اکٹھا کیا جاتا ہے دوسرے دن ایک اور گاؤں پہنچتا ہے وہاں جا کر یہی پریکٹس دوہرائی جاتی ہے اپنے باپ کی عمر کے لوگوں کو لائن میں کھڑا کر کے تلاشی لیجاتی ہے پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ ایس ایچ او ہوں وردی کیوں نہیں پہنی اسپیشل ڈیوٹی پر ہوں گاؤں کے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں ساتھ ہی میڈیا کو اطلاع کر دی جاتی ہے معاملہ خراب ہونے پر سنتری بادشاہ اپنے جتھے کے ہمراہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد ڈی ایس پی تلہ گنگ حرکت میں آتے ہیں مگر شاید حرکت میں آتے ہی برکت پڑ جاتی ہے اور معاملہ جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر نپٹا دیا جاتا ہے،دو روز قبل اچانک کلر کہا رسے ایک افسر اعظم کی مبینہ آڈیوکال لیک ہوتی ہے جس میں صاحب بہاد رکسی کار لفٹر یا اسمگلر سے معاملہ طے کر رہے ہیں اور( صرف )پانچ لاکھ کے علاوہ ایک نان کسٹم گاڑی بھی ڈیمانڈ کر رہے ہیں ،فون کی دوسری طرف والے بند ے کو حکم دیا جاتا ہے کہ ضمیر سے میری بات کراو اور جب بتایا جاتا ہے کہ ضمیر موجود نہیں تو کہا جاتا ہے کہ شہزاد ہوگا اس سے بات کروادو بات ہوتی ہے شہزاد کو بتایا جاتا ہے کہ پنچ لکھ لے لو ،ضمیر صاحب اس وقت تو موجود نہیں تھے مگر آجکل موجود ہیں اور ایس ایچ او ہیں تاہم یہ کنفرم نہیں کہ یہ وہی ضمیر ہیں یا وہ کوئی اور باضمیر ہے اس معاملے پر بھی ڈی پی او نے نوٹس لیا اور صاحب بہادر کو معطل کر دیا انہی کے خلاف انہی کے ایک لوئر رینک کے بندے نے پولیس کے اعلی حکام کو درخواست دی کہ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ منشیات فروشوں اور جواریوں سے پیسے اکٹھے کرو،حقیقت کیا ہے یہ تو تفتیش اور تحقیق کے بعد ہی سامنے آئے گا مگر یہ سب ہو کیا رہا ہے ڈی پی او چکوال باقی سارے کام کاج چھوڑ کراپنے ہی محکمے کے فرض شناسوں کی ایک سے ایک نئی ورادات کی انکوائری میں مصروف ہیں ،بہت سے حکمران آئے گئے اور ہر ایک نے اپنے تئیں اس محکمے کو بدلنے کی کوشش کی ان کی تنخواہیں بڑھائی گئیں اعلی قسم کے ہتھیاروں سے لیس کیا گیا حال ہی میں بے شمار نئی گاڑیاں دی گئیں وردی تک بدل ڈالی گئی مگر یہ لوگ ہیں کہ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کو تیار ہی نہیں ،کیسے اس محکمے کا امیج عوام میں بہتر ہو گا جب حالت یہ ہو گی کہ یہ لوگ نہ صرف مجرموں کی پشت پناہی کریں گے بلکہ بعض اوقات خود بھی سنگین ترین وارداتوں میں شامل ہوں گے ، ان افسران کے اکاوئنٹ چیک کروائے جائیں اور اثاثوں کی چھان بین ہو تو ایک عالم حیران رہ جائے گا شاید ہی کوئی ایسا تھانیدار ہو گا جس کے پاس کرورڑوں روپے کا بنک بیلنس ،لگژری گاڑیوں کے علاوہ بحریہ اور ڈی ایچ اے میں پلاٹس نہ ہوں، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں چکوال سٹی کا ہی ریکارڈ دیکھ لیں،صرف تنخواہ میں کیا ایسا ممکن ہے ،جو چند آٹے میں نمک کے برابر ایماندار ہیں وہ اپنی جگہ حیران و پریشان ہیں کہ وہ اس محکمے میں آ کدھر گئے، حالیہ لاک ڈاون کی صورتحال میں شہر میں ہزاروں دکانیں ہیں مگر کہیں دو تین بھی کھلی ہوں تو پولیس والوں کو پتہ چل جاتا ہے اور یہ بندہ اٹھا کر لے جاتے ہیں مگر مجرم جو ہزاروں کی بجائے چند درجن سے زیادہ نہیں ہوں گے انہیں کیوں نظر نہیں آتے ،اس لیے کہ یہ ادھر دیکھنا ہی نہیں چاہتے ورنہ کیا مجال کسی کی کہ کوئی منشیات کا کام کرے یا کسی اور واردات کا مرتکب ہو اور بچ نکلے مگر جب آپ کا چوکیدار چور سے مل جائے گا محافظ ڈاکووں کا سہولت کار ہو جائے گا تو آپ خواہ کتنی ہی مظبوط اور لوہے کی دیوار کے حصار میں بھی بیٹھ جائیں بچ نہیں سکیں گے کیوں کہ چور اور ڈاکو سے تو تحفظ کسی نہ کسی طرح ممکن ہے کہ نظر آ رہاہوتا ہے کہ یہ چور ہے ڈاکو ہے اچکا ہے جو دستیاب ہتھیار پاس ہو گا آزمایا جاے گا ،آر یا پار والا معاملہ جان بچائی جائے یا مال،مال بچایا تو جان جاے گی سو اکثر مال دیکر جان بچا لی جاتی ہے اور پھر باقی مال اگر کچھ بچ جاے کی بچت کے لیے تھانے کچہری کے چکروں کے بجائے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ،لیکن اگر معاملہ ہی الٹ ہو یعنی چوکیدار ہی لٹیرا بن جائے تو کیسا تحفظ اور کیسی حفاظت،اب ایک ہی راستہ ایک ہی حل باقی بچا ہے کہ ہر وقت اﷲ سے عافیت مانگی جائے ،کبھی سندھ پولیس کے قصے سنائے جاتے تھے مگر اب ہم بھی سندھ والوں سے کم نہیں ،،،اﷲ ہم پر رحم کرے