تحریر۔۔۔ حافظ محمد تنویر
دور حاضر میں چند نام نہاد لبرل یورپین سوچ کے مالک افراد کا کہنا ہے کہ
نکاح کیوں ضروری ہے نکاح کے بغیر بھی تو انسان اچھے تعلقات قائم کر کے
زندگی گزار سکتا ہے اگر دو انسانوں کی سوچ آپس میں ملتی ہے تو ایک ہی گھر
میں ایک ہی چھت کے نیچے اچھے تعلقات کی بنا پر کیوں نہیں رہ سکتے مطلب یہ
کہ گویا نکاح کی اہمیت و قدر کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اسلام میں قدر و
اہمیت اور معاشرتی تحفظ کے بارے میں دوست محمد صاحب کچھ یوں لکھتے ہیں’’بات
ہوتی ہے دو دلوں کے بیچ تو دو خاندان بولتے ہیں ‘‘یہ تو مسلم امت کی حقیقت
ہے کہ ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں ان کی روایات اور اقدار بھی یہی ہے کہ
شادی دو افراد کا ملنا ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان ایک ایسا تعلق
ہے جس کو نہ چاہتے ہوئے بھی توڑا نہیں جا سکتا اب آ تے ہیں اسلام کی طرف کہ
اسلام ہمیں کیا کہتا ہے اسلام میں نکاح کی کیا اہمیت ہے اور ہمارے آقا جی
محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے نکاح کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے اس میں ہمیں
یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جس طرح نکاح کا تصور بیان کر کے نظریہ توازن کی
بنیاد رکھی گئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ آج کے دانشور لوگ نکاح کو
محض جنسی تسکین اور فطری جذبات کو پورا کرنے کے لیے فطری ضرورت سمجھتے ہیں
لیکن اس خواہش کو اسلامی طریقہ سے پورا کرنے کے لیے نکاح کو لازمی قرار دیا
گیا ہے تاکہ انسانی بقا کا تحفظ بڑے اچھے طریقے سے کیا جا سکے اس لیے آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’النکاح من سنتی ‘‘نکاح میری سنت ہے قرار دے
کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نکاح کی قدروقیمت کو اور زیادہ کر دیا ایک اور
جگہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کو آدھا ایمان قرار دیا ہے اور اس
طرح نصف ایمان کی تکمیل کی گئی۔اس کے بعد بقیہ نصف زندگی ہمیں چاہیے کہ
اپنے مالک حقیقی سے ڈرتے رہا کریں اور تقوی اختیار کریں تاکہ خوف خدا محسوس
ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت کوئی انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کی
کوشش کرے تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا ہو کہ اﷲ ہر جگہ موجود ہے ایک حدیث
میں نکاح کے بارے میں واضح ارشاد ہے ’’ہے جوانوں کی جماعت جو شخص خانہ داری
کا وزن اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ نکاح کو
نگاہ کے پست ہونے اور شرم گاہ کو محفوظ رکھنے میں خاص دخل ہے ‘‘نکاح کی
اسلام میں اہمیت کو موضوع قلم کرنے کے لیے بہت لمبی نشستیں درکار ہیں وقت
کا خیال رکھتے ہوئے میں نے چند ایک احادیث مبارکہ کا حوالہ دیا ہے اس کی
وجہ یہ ہے کہ آج کل اخبارات میں ملالہ یوسفزئی کا ایک بیان آیا ہے جس میں
انہوں نے برطانوی فیشن میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو انسانوں
کو ایک ساتھ رہنے کے لیے نکاح کی ضرورت نہیں ہے دوست بن کر رہنا ہی کافی ہے
ہے اگرچہ ان کے والد گرامی نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملالہ
نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا بلکہ اس کے بیان کوسیاق و اسباب سے ہٹ کر پیش
کیا جا رہا ہے اگر ملالہ کے والد اس بیان کو من و عن سے ٹویٹ کر دیتے کہ
میری بیٹی نے یہ نہیں بلکہ یہ بیان دیا ہے جو کسی طور اسلام کے خلاف نہیں
ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بیان پوری دنیا نے لائیو سنا ہے
اور دیکھا ہے بات ملالہ کی نہیں کیونکہ ایسے بیانات اسلام کی روح کو داغدار
کرنے کے لئے پہلی بار نہیں دیئے گئے لیکن اسلام کو کوئی نہ نیچا دکھا سکا
اور نہ دکھانے والا پیدا ہوگا اس بات یہ تو واضح ہوگیاہے کہ جن لوگوں نے اس
کی پرورش کی تھی اب اس سے کام لینے کا وقت آگیا ہے لیکن نکاح کرنا یا نہ
کرنا اس کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے لیکن اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ فلاں اور
زیادہ کس طرف ہیں اور ہماری جو نوجوان نسل ہے آنے والے دنوں میں اس پر اس
بیان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ وہ سارے تحفظات اور باتیں ہیں جس کی وجہ
سے لوگ ملالہ کے اس بیان کی مخالفت اور غیر اسلامی اور معاشرے میں بگاڑ کا
سبب بتا رہے ہیں آنے والی نسل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو آنے
والا وقت ہی بتائے گا رب کائنات ہمیں دین اسلام کے سنہری اور لازوال اصولوں
پر چلنے کی توفیق دے آمین۔
|