|
|
شادی کے لئے لڑکے کی مرضی پوچھی جائے تو عام طور پر
انھیں گھریلو لڑکی درکار ہوتی ہے۔ ایسی لڑکی جو کھانا پکانے سے لیکر گھر
چلانے کے تمام امور سے بخوبی واقف ہو البتہ اتنا پڑھی لکھی ضرور ہو کہ بچوں
کی اچھی تریت کرسکے۔ جبکہ کچھ مرد حضرات بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں
اور چاہتے ہیں کہ بیوی ایسی ہو جو گھر چلانے کے ساتھ ساتھ نوکری کرکے گھر
کے اخراجات اٹھانے میں شوہر کی مدد کرسکے۔ اسی مسئلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
ہماری ویب کی ٹیم نے لوگوں سے یہ سوال کیا کہ “بطورِ بیوی، خاتون کا ہاؤس
وائف ہونا زیادہ بہتر ہے یا پھر ورکنگ وومن“ اس سوال کے لئے ملنے والے
جوابات ہم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں |
|
مجھے تو گھریلو بیوی ہی
چاہئیے۔۔۔ |
ہماری ویب کی ٹیم کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مردوں
کی اکثریت کا جواب یہ تھا کہ انھیں گھریلو بیوی ہی چاہئیے کیونکہ کمانا ان
کی ذمہ داری ہے جبکہ بیوی کی ذمہ داری گھر پر رہ کر گھر کی دیکھ بھال اور
بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ کچھ کے خیال میں اگر بیوی کہیں کام کرتی بھی ہو تو
اس جگہ کا ماحول ویسٹرن نہیں ہونا چاہئیے جبکہ ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا
کہ انھیں اچھا نہیں لگے گا ان کی بیوی کو کوئی اور دیکھے اس وجہ سے انھیں
گھریلو بیوی ہی چاہئیے |
|
|
|
میں پڑھا لکھا ہوں تو
بیوی بھی پڑھی لکھی ہو۔۔۔ |
جہاں کچھ مردوں نے گھریلو خواتین کو فوقیت دی وہیں ایسے
مرد حضرات بھی تھے جن کے مطابق اگر وہ خود پڑھے لکھے ہیں تو ان کی بیوی کو
بھی پڑھا لکھا ہونا چاہئیے تاکہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور گھر کے
اخراجات اٹھانے میں ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ جبکہ ڈاکٹر بیوی کے لئے کچھ
حضرات نے اپنی شرائط میں خصوصی نرمی دکھائی |
|
|
|
خواتین اس بارے میں کیا
کہتی ہیں |
اس سروے میں مردوں کے علاوہ خواتین سے بھی ان کی رائے
پوچھی گئی جسے کے جواب میں ایک خاتون کا کہنا تھا کہ“اگر آدمی خود پڑھا
لکھا ہے تو اسے بیوی بھی پڑھی لکھی نوکری پیشہ چائیے ہوگی لیکن اگر خود وہ
تنگ نظر ہے تو اسے گھریلو بیوی ہی چاہئیے ہوگی “ جبکہ دیگر خواتین کے مطابق
پاکستانی خواتین اتنی اہل ضرور ہیں کہ گھر کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ
داریاں بھی اٹھا سکیں اس لئے اگر وہ خود سے نوکری کی خواہش رکھتی ہیں تو
انھیں روکنا نہیں چاہئیے البتہ گھر کو بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہئیے۔ |
|
|
|
خواتین کی حقیقی ذمہ
داریاں |
ہمارے معاشرے میں خواتین کا گھر سے باہر جاکر نوکری کرنا
کچھ زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظریات کے مطابق
گھر چلانے کی معاشی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے مرد پر عائد کی ہیں جب کہ
گھریلو امور کی ادائیگی خاتونِ خانہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اسلام میں خواتین
کا کام کرنا یا صلاحیتوں کو بروئے کار لانا منع ہر گز نہیں ہے جس کی سب سے
بڑی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دی جاسکتی ہے جنھوں نے پردے
میں رہتے ہوئے تجارت کی اور اسلام کی خاتونِ اول کہلائیں۔ البتہ خواتین کی
اصل ذمہ داری گھر اور بچے ہیں جنھیں معاشی بھاگ دوڑ کے دوران نظر انداز
نہیں کیا جانا چاہئیے |
|