ریل آف شیم

چائنہ نے کمال کردیا جو ہم نے سوچا نہیں پڑوسی ملک نے اس پر عمل کرکے قرضہ خوروں کو بیچ چوراہے میں ننگا کردیاہے اخباری اطلاعات میں بتایا گیاہے چینی صوبے سچوان کی ہیجیانگ کاؤنٹی میں قرض لے کر واپس نہ کرنے والے خواتین وحضرات کے نام اور تصاویر سینما شوز سے قبل دکھائے جارہے ہیں تاکہ وہ شرمسار ہوکر اپنا قرض واپس کرنے میں جلدی کریں۔اسے ’ریل آف شیم‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے شروع میں اینی میٹڈ کارٹون آکر کہتا ہے:آؤ دیکھو یہ ہیں لاؤلائی!‘ یہاں لاؤلائی کا لفظ ایسے لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جو وقت پر اپنی قرض لی گئی رقم جمع کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کے بعد سینما اسکرین پر قرض لے کر واپس نہ کرنے والوں کی تصاویر اور نام ظاہر کیے جاتے ہیں۔ہیجیانگ کورٹس میں قوانین پر عمل در آمد کے سربراہ لی جیانگ نے بتایا: ’قرض واپس نہ کرنے والوں کو عوامی سطح پر شرمندہ کرنا، بلیک لسٹ کرنا اور ان پر سفری پابندیاں عائد کرنا ایک عام بات ہے۔

جیانگ نے مزید کہا کہ جس علاقے میں قرض واپس نہ کرنے والے افراد بستے ہیں عین ان ہی سینما میں ان کی تصاویر اور نام ظاہر کیے جاتے ہیں تاکہ یہ مہم بھرپور طور پر اثرانداز ہوسکے۔ ریل آف شیم کے بعد یہ خبر پورے چین کے سوشل میڈیا پر مشہور ہوتی جارہی ہے جس میں 26 ایسے بااثر تاجروں کی تصاویر دکھائی گئی ہیں جنہوں نے حکومت سے قرض لے کر اب تک واپس نہیں کیا ہے اور حکومتی اصرار کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے۔چین میں کئی طرح سے قرض واپس نہ کرنے والوں کو شرمندہ کیا جاتا ہے۔ ان کی تصاویر بڑے اشتہاری بورڈ پرآویزاں کی جاتی ہیں، اس کے علاوہ جیانگسو، ہینان اور سچوان صوبوں میں قرض واپس نہ کرنے والے کے نمبروں پر کوئی فون کرے تو ٹیلی کام کمپنیاں پہلے اس قرض خور فرد کا جرم سناتی ہیں پھر اس شخص سے رابطہ ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کھربوڈکے قرضے معاف کروانے والوں کو شرم آتی ہے نہ حیا پھر بھی وہ خوب اتراتے پھرتے ہیں اب سپریم کورٹ نے تمام قرض معاف کروانے والے 222 افرادکوطلب کرنے کا نوٹس جاری کر د ئیے ہیں،چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 222 افراد کے خلاف ضابطہ قرضے معاف کرائے ہیں‘ کمیشن نے تمام افراد کے خلاف انکوائری کی سفارش کی ہے‘۔ گذشتہ سے پیوستہ دورمیں سپریم کورٹ میں قرضے معاف کرانے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا تھاکہ گورنر سٹیٹ بنک خود خلاف ضابطہ قرضے معاف کرائے تمام 222 افراد کو نوٹس جاری کرینگے۔چیف جسٹس نے کہا کہ84ارب روپے کے قرض معاف کروائے گئے، قرض معاف کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی عدالت نے قرض معاف کرانیوالے 222 افرادکونوٹس تو جاری کئے۔ لیکن ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کوء نہیں جانتا ؟معلوم ہوا ہے کہ قرضہ معاف کروانے والوں میں نامی گرامی شخصیات کے نام ِ نامی ہیں بہرحال ان مگر مچھوں کے حلق میں انگلی ڈال کر ملکی دولت اگلوائی جانی چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مزید انکشاف ہوا ہے اسے اعتراف بھی کہا جا سکتاہے کہ پاکستان میں فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کے پاس رجسٹرڈ 3 ہزار 333 کمپنیوں میں سے 2 ہزار 8 کمپنیاں یعنی کْل رجسٹرڈ کمپنیوں کا 60.1 فی صد کمپنیاں کوئی ٹیکس ادا ہی نہیں کرتیں۔ دستاویزات کے مطابق 3 ہزار 333 کمپنیوں نے کْل 170 ارب روپے ٹیکس جمع کروایا۔ان کْل رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے ایک لاکھ تک ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیاں 7.6 فیصد ہیں، جن کا ادا کردہ ٹیکس 82 لاکھ 87 ہزار روپے ہے۔اسی طرح ایک سے 5 لاکھ کے دوران 6.2 کمپنیوں نے 5 کروڑ ساڑھے 74 لاکھ روپے ٹیکس دیا۔ 10 لاکھ کے درمیان ٹیکس دینے والی کمپنیاں 3.5 فی صد ہیں اور ان کمپنیوں نے 8کروڑ 42 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔ سے 50 لاکھ کے درمیان ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیاں کْل کمپنیوں کا 6.7 فیصد ہیں اور انہوں نے 55کروڑ 61 لاکھ روپے ٹیکس دیا۔ لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ٹیکس دینے والی کمپنیاں صرف 2.4 فیصد ہیں اور ان کے ٹیکس کی رقم 55کروڑ47 لاکھ روپے بنتی ہے۔جبکہ ایک کروڑ سے 5کروڑ کے درمیان ٹیکس دینے والی کمپنیوں کی شرح 6.3 فیصد ہے اور ان کمپنیوں کی طرف سے جمع شدہ ٹیکس کی رقم 5 ارب 17کروڑ روپے بنتی ہے۔ 10کروڑ کے درمیان ٹیکس دینے والی کمپنیوں کی شرح صرف 2.10 فیصد ہے اور انہوں نے 4 ارب 89 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا۔دستاویز کے مطابق 10کروڑ سے زیادہ ٹیکس دینے والی کمپنیاں تقریباً 5 فیصد ہیں اور ان کمپنیوں نے 158 ارب 45 کروڑ 28 لاکھ روپے ٹیکس جمع کروایا۔ ان حالات میں ملک کیسے ترقی کرے گا کوئی نہیں سوچتا۔پاکستان میں بھی’’ ریل آف شیم‘‘ طرزکا کوئی ٹی وی پروگرام لایا جائے جو تمام نیوز چینلز سے دکھایا جائے اس سلسلہ میں نیب اور سی بی آر کو اپنا ہوم ورک کرنا چاہیے تاکہ یہ مگر مچھ بے نقاب ہو سکیں پھر شایدان کو شرم آہی جائے۔
 

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 353968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.