ریل پٹڑی پر کب چڑھے گی؟

گزشتہ دنوں ڈھرکی کے قریب دو ٹرینوں میں خوفناک تصادم ہوا۔ جس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق اور 100زخمی ہوئے۔دنیا بھر میں ریل کاسفر محفوظ و پر سکون سمجھا جاتاہے۔ عرب ممالک اور یورپی دنیا میں ٹرین کا سفر لوگوں کی اولین ترجیح ہوتاہے۔ خصوصاََ ڈومیسٹک ٹریولنگ کے لیے عوام کی ایک کثیر تعداد ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے یہ ممالک سب سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل ٹرینیں چلاتے ہیں اور ان کو قابل بھروسہ بناکر بہت بڑا سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ٹرینوں کی حالت ہی قابل رحم ہے۔جب بھی کسی نئی ٹرین کے چلانے کا سرکاری اعلان ہوتا ہے تواس کی اوپر کی لیپا پوتی کرکے ٹرین کو چمکایا جاتاہے۔ پرانے انجنوں اور خستہ حال پٹڑیوں پر نئی بوگیاں چڑھا دی جاتی ہیں۔ عالمی بینکوں سے سرکاری اداروں کی اپڈگریشن کے لیے اربوں کے قرضے لیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک پائی بھی ان اداروں پر خرچ نہیں کی جاتی۔ جس کی تازہ مثال ڈہرکی میں ہونے والا المناک حادثہ ہے۔

ڈہرکی ٹرین سانحے سے 3دن پہلے ریلوے افسران نے ٹریک خراب ہونے کا انتباہ جاری کیا تھا۔ اور یہ کہا گیا تھا کہ اس ٹریک پر کسی بھی وقت کوئی بھی بڑا حادثہ رونما ہوسکتاہے۔ چیف انجینئر نے 4جو ن کو ڈی ایس کو خط لکھا کہ ریلوے ٹریک کی خرابی کو دور کرنے کے لیے تمام متعلقہ وسائل مہیا کردیے گئے ہیں تو اب تک ٹریک پر کام شروع کیوں نہیں ہوا۔جس پر وہی روایتی جواب دیا گیا کہ لاگت زیادہ ہے اور دی گئی رقم کم ہے۔ معاملہ سنگین تھااور حادثے کا خطرہ تھاتو پھرکلیدی عہدوں پر بیٹھے ہوئے بڑے سرکنڈوں کو کٹھرے میں لایاجائے۔ غیر ذمہ داری دکھا نے والے سرکاری ملازموں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے ۔ اوراس کے علاوہ قیمتی جانوں کے نقصان کے ذمہ دارو ں کا تعین بھی بے حد ضروری ہے۔ تاکہ سالوں سے چلی آئی اس روایت کو ختم کیا جاسکے کہ جس کی وجہ سے ہرحادثے کے بعد ذمہ داروں کا تعین ہی نہیں ہوپاتا۔ہزاروں لوگ ریلوے ایسے خسارے والے ادارے کو اپنے خون کا خراج دے چکے ہیں۔مگر اس کے باوجود ریلوے کی حالت سدھار کی طرف نہیں آرہی۔

کے حادثوں کاایک تسلسل ہے جو بڑھتا ہی جارہاہے۔ریل گاڑی کے حادثوں پر مبنی دودہائیوں کے اعداد وشمار دیکھیں تو ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔ ان میں سے اکثر حادثوں کی نوعیت یکسانیت پر مبنی ہے۔17 مارچ 2002شیخوپورہ میں فیصل آباد جانے والی ٹرین پٹڑی سے اتر ی 7 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔27 ستمبر 2002 سبی میں ٹرین پٹڑی سے اترگئی 7 افراد ہلاک اور 57 زخمی ہوگئے تھے۔ 21 ستمبر 2003 منڈی بہاؤالدین ضلع ملکوال کے قریب ٹرین بس سے ٹکراگئی ۔نتیجے میں 28 افراد ہلاک اور 10 زخمی۔13 جولائی 2005 سکھرکے قریب دور شہداد ریلوے اسٹیشن پر 3 مسافر ٹرینوں میں تصادم ہوا، 130 افراد جاں بحق اور 170 کے قریب زخمی ہوئے۔ 30 جنوری 2006 لاہور جانے والی ٹرین کو جہلم ڈومیلی کے مقام پر حادثہ ہوا 4 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 40 زخمی ہوئے۔ 19 دسمبر 2007نوشہرہ فیروز میں کراچی ایکسپریس کی 16 بوگیاں پٹڑی سے اترگئی تھیں، 50 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے ۔ 3 نومبر2009 کراچی میں علامہ اقبال ایکسپریس اور مال بردار ٹرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق اور 45 زخمی ہوگئے تھے۔ 30 اگست 2011 کراچی جانے والی خیبر میل لاہور کے بادامی باغ ریلوے اسٹیشن سے قریب دو کلومیٹر دور کھڑی مسافر ٹرین سے ٹکرا گئی تھی ۔اس حادثے میں ٹرین کے اسسٹنٹ ڈرائیور سمیت 3 افراد جاں بحق اور 19 کے زخمی ہونے تصدیق ہوئی۔ 25 جولائی 2013 گوجرانوالہ کے قریب حادثہ ہواجس میں 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ 7 مئی 2014 نواب شاہ کے قریب قراقرم ایکسپریس حادثے کا شکار ہوئی2 افراد جاں بحق اور 15 زخمی۔ 11 نومبر 2014 خیرپور میں ٹرین مسافر کوچ سے جالگی48 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2 جولائی 2015 گوجرانوالہ میں فوجی جوانوں کی خصوصی ٹرین کی 3 بوگیاں الٹ گئیں،19 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 19 جولائی 2015 مٹیاری میں کار اور ٹرین کے درمیان تصادم ہوا۔ 6 افراد جاں بحق ہوئے ۔ 17 نومبر 2015 جعفر ایکسپریس پٹڑی سے اتر گئی، 19 مسافر جاں بحق ہوئے۔ 15 ستمبر 2016 مسافر ٹرینمال بردارگاڑی سے ٹکرائی۔ 6 مسافر جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ 8 اکتوبر 2016 بس اور مال بردار گاڑی میں تصادم ہوا۔ 4 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے۔ 3 نومبر 2016 زکریا ایکسپریس اورفرید ایکسپریس ٹکرا گئیں۔ 22 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔6 جنوری 2017لودھراں میں ٹرین نے رکشے کو کچل دیاتھا،نتیجے میں 7 اسکول کے بچے جاں بحق ہوئے۔8 مارچ 2017 شالیمار ایکسپریس آئل ٹینکر سے ٹکراگئی ۔ 2 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوئے۔24 دسمبر 2018 شالیمار ایکسپریس کی 3 بوگیاں پٹڑی سے اتر کر ملت ایکسپرپس سے ٹکراگئیں ۔ایک شخص جاں بحق اور 6 زخمی ہوئے۔ 20 جون 2019 جناح ایکسپریس اور مال بردار گاڑی کو حادثہ ہوا۔ 3 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ 11 جولائی 2019 اکبر ایکسپریس کوحادثہ ہوا۔ 21 مسافر جاں بحق اور 85 زخمی ہوئے۔ 31 اکتوبر 2019رحیم یار خان میں تیزگام ایکسپریس کی 3 بوگیوں میں آگ لگنے سے 74 مسافر جاں بحق ہوگئے تھے۔ 28 فروری 2020 پاکستان ایکسپریس اور مسافر بس میں خوفناک تصادم ہوا۔ 19 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔ 3 جولائی 2020 شاہ حسین ایکسپریس ٹرین اور کوسٹر کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔7 مارچ 2021کراچی ایکسپریس کی متعدد بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ایک شخص جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔7 جون 2021گھوٹکی میں ہونے والا اندوہناک حادثہ ہے۔ جس میں 40 افراد جاں بحق اور 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ٹرین کا سفر تفریح کا ذریعہ اور خوشی کا باعث سمجھا جاتاتھا۔ بچے ٹرین کے سفر کے لیے پر جوش ہوتے تھے۔ ہمیں یاد ہے جب پہلی دفعہ خیبر میل کا سفر کیا تھا تو ریلوے سے رومانس کا تعلق جڑ گیا تھا۔ دودہائیوں میں ریلوں کی حالت یہ ہوگئی کہ اب یہ ادارہ مسافروں کے لیے بھوت بنگلہ بن چکا ہے۔جس میں صرف ڈر ہے۔ عام آدمی کے لیے آسان اور سستہ ذریعہ سفرریلہوتی ہے۔جس میں وہ باسہولت منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔لیکن اب ریلوں کوپیش آنے والے پے درپے حادثات نے لوگوں کی توجہ سڑک کے سفر کی طرف کروادی ہے ۔جہاں مختلف نجی کمپنیوں کی بسیں ریلوں سے اچھی سروسز فراہم کررہی ہیں۔ریل کے سفر کے ساتھ رومانس کا تعلق بنا رہنا چاہیے۔ البتہ عام آدمی کے لیے ریل کو صحیح معنوں میں پٹڑی پر چڑھاناہوگا۔

 

Muhammad Ansar Usmani
About the Author: Muhammad Ansar Usmani Read More Articles by Muhammad Ansar Usmani: 99 Articles with 97306 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.