آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت شدت پرستی کی آگ میں یا تو
جل سڑ رہی ہے یا پھر اس الاؤ سے اٹھنے والے دھوئیں کی زد میں آ کر بری طرح
کھانستے کھانستے ہلکان ہوئی جاتی ہے۔
بیش تر جگہوں پر شدت کا جنم مذہب اور عقیدہ مختلف ہونے کی بنیاد پہ ہوتا ہے۔
کچھ ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں زبان کا مختلف ہونا انسانوں کو انسانوں کے
خلاف محاذ آرائی کا جواز مہیا کرتا ہے۔
کہیں معاملہ یوں بھی ہے کہ رنگ اور نسل میں فرق ہونے کی وجہ سے ایک گروہ
دوسرے گروہ پر چڑھ دوڑنے کے بہانے ڈھونڈنے میں بَر سرِ پیکار رہتا ہے۔ کہیں
محض مختلف جغرافیائی محلِ وقوع دوسرے انسانوں سے مخاصمت کی وجہ بن جاتا ہے۔
نظریاتی، سماجی، سیاسی، ثقافتی، نسلی، جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے
مختلف ہونا اس دنیا میں سب سے بڑا جرم بنتا جا رہا ہے۔ حالاں کہ جن بنیادوں
پہ انسان ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے قابلِ نفرت گردانے جاتے ہیں ان
میں سے اکثر بنیادیں محض اتفاقی طور پہ اس کے حصے میں آئی ہوتی ہیں۔
تاریخ، جغرافیہ، نسل، ثقافت، سماج، نظریہ، عقیدہ ایسی بنیادیں ہیں جن کے
انتخاب میں عمومی طور پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ بنیادیں نسل
در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بعض لوگ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے
ساتھ ان بنیادوں میں تبدیلی لے آتے ہیں اور اپنی مرضی یا اپنی سمجھ بوجھ
کے مطابق کچھ الگ منتخب کر لیتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ ہوتے ہی کتنے ہیں؟
زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہر انسان اپنی مرضی کی بنیادیں منتخب کرنے کی عیاشی
کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسے فرق کی بنیاد پر کسی انسان کا نشان زد ہو
جانا جس پہ اس کا اپنا اختیار نہیں ہوتا، اس دنیا کی عجیب ترین بات ہے۔
دنیا کی دوسری عجیب ترین بات یہ ہے کہ اس میں سے سچ کو ڈھونڈنا ایسے ہی ہے
جیسے آپ اندھیرے کمرے میں سُوئی تلاش کر رہے ہوں۔ یہاں کا سچ اتنا شرمیلا
ہے کہ تہہ در تہہ پردوں میں چھپ کے رہتا ہے۔ آنکھ مچولی کھیلنا اس کا
محبوب مشغلہ ہے۔ اسے سطح پر لانے والے کا وہی حال ہوتا ہے جو پیاز کی تہیں
اتارنے والے کا ہوتا ہے۔ نازک مزاج ایسا کہ ہاتھ لگانے سے چُھوئی مُوئی کے
پتوں کی طرح وضع قطع بدل لیتا ہے۔ جھوٹ کی ایک ہلکی سی ملاوٹ سے اپنی وُقعت
کھو بیٹھتا ہے اور گدلا ہو جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں جھوٹ اس دنیا میں زیادہ پائیدار جنس ہے۔ اس میں سچ کی
جتنی بھی آمیزش کر لو یہ اپنی حیثیت، وضع قطع، ذائقہ اور اثر برقرار رکھتا
ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں ننانوے فی
صد بھی سچ شامل کر لیا جائے پھر بھی اس کی پہچان جھوٹ ہی سے ہوتی ہے۔ جب کہ
دوسری طرف سچ میں ایک فی صد بھی جھوٹ شامل ہو جائے تو اس کی پہچان بدل جاتی
ہے اور جھوٹ کی صرف ایک فیصد ملاوٹ سے ہی سچ میلا ہو جاتا ہے۔ جھوٹ میں
جتنی طاقت ہے یہ طاقت سچ میں اگر رکھ دی جاتی تو کئی معاملات آسانی سے نمٹ
جاتے۔
|