آج کے اس ترقی یافتی دور میں جہاں ہر شخص دوسرے کو
نیچادیکھا کر آگے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔جہاں ہر شخص دوسرے کی
کامیابی کو دیکھ کر حسد کا شکار ہو جاتا ہے ، جہاں ہر کوئی اپنے سے چھوٹے
پر ظلم کا مرتکب ہے ،پھر وہاں لوگوں کا یہ کہنا کہ زندگی میں سکون نہیں ،
کوئی کام ٹھیک نہیں ہو رہا ، ہمارے حکمرانوں کا حال بہت بُرا ہے، پتا نہیں
ہمارے حالات کب بدلے گے؟
ہمارے حالات کا اچھا بُرا ہونے کا دارومدار ہمارے اعمال پر ہوتا ہے ۔ اگر
ہمارے اعمال اچھے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ حالات کو بھی اچھا بنا دیں گے ،اور
اگر اعمال بُرے ہوں گے تو حالات کو بھی ناموافق بنادیتے ہیں۔
ہم یہ سوچتے ہیں کہ پہلے حالات ٹھیک ہوں پھر ہم اعمال بھی ٹھیک کریں
گے۔جبکہ ایسا نہیں ہوتا، ہر کام کی ایک ترتیب ہوتی ہے اور اسی کے مطابق وہ
اچھا لگتا ہے۔پہلے ہم اپنے اعمال کو سنواریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے حالات
کو سنوار دیں گے۔
پھر ہمارا ،ہمارے حکمرانوں کو بُرا بھلا لہنا۔ یہ کہنا کہ ان کی وجہ سے
ہمارا ملک تباہ ہو گیا ہے ، یہ سراسر غلط فہمی ہے۔
حدیث پاک ﷺ میں ہے:
ترجمہ:"جیسے تم ہو گے ویسے تمہارے حکمران ہوں گے"
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ آج اگر ہم بُرے ملکی حالات کا شکار ہیں تو اس کی
وجہ حکمرانوں کا بُرا ہونا نہیں کیونکہ اگر ہم اچھے ہوتے تو حکمران بھی
کبھی بُرے نہ ہوتے۔ہماری ترقی کا دارومدار ہمارے اعمال پر ہے۔اپنے اعمال کو
سدھاریں گے تو نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی کامیابی ہی ملے گی ۔ یہ
ایسا راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے اگر جیت گئے تو بات ہی کچھ اور ہے! اور اگر
ہار گئے تو بھی شکست نہیں ،بلکہ کامیابی ہی کامیابی ہے۔
|