آواز دینے آیا تھا

دوستوں کو گلہ ہے کہ میں آج کل بہت کم لکھتا ہوں۔یقیناً کم لکھتا ہوں مگر کیا لکھوں۔ یہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا۔ سیاست میرا موضوع نہیں۔ کبھی کبھار لکھ دوں تو بہت سے لوگوں پر گراں گزرتا ہے۔سیاست اس ملک میں بونوں کے ہاتھوں میں ہے۔ سوچ سے عاری ، فہم وفراست سے نا آشنا ، یہ لوگ مثبت تنقید کو بھی نہیں سمجھتے۔چھوٹی چھوٹی سمجھنے والی باتوں کو سمجھنے ، ان پر غور کرنے اور پھرخود میں بہتری لانے کی بجائے ، یہ اس تحریر کو اپنی توئین جان کر عزت کا مسئلہ منا لیتے اور لکھنے والوں اور اخبارات کے لئے بہت سے غیر ضروری مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ انسان لکھتا تو معاشرے کی فلاح کے لئے ہے،لوگوں کی اصلاع کے لئے ہے۔وہ مقصد حاصل ہونے کی بجائے الٹا خود مسائل کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ اس موضوع کو کم سے کم چھیڑا جائے۔ویسے بھی میرے لہجے میں کرواہٹ بھی شاید زیادہ ہے،اس لئے میں سیاست پر بہت کم لکھتا ہوں۔

میرا تعلق تعلیم سے ہے۔تمام عمر پڑھایا ہے اور اساتذہ کی نمائندگی بھی کی ہے ۔ہر جگہ اساتذہ مسائل کے بارے ببانگ دہل بات کی ہے ۔جھکنے ، دبنے یا ذاتی مفاد کے لئے سودے بازی کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ گو ریٹائر ہوں مگر اب بھی اساتذہ مسائل میں دلچسپی بھی لیتا ہوں اور اس پر لکھتا بھی ہوں۔جو سوچتا ہوں ، انجام کے بارے سوچے بغیر لکھ دیتا ہوں۔ لکھنے کے لئے بہترین انتخاب آپ کا اپنا ماحول اور اپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔میں جس جگہ پڑھاتا ہوں ،وہاں مجھے بھی اور میرے دیگر ساتھیوں کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ خصوصاً اس کاغذی ماحول میں جہاں انسان کی علمیت سے زیادہ اس کے پاس موجود کاغذوں کی قدر زیادہ ہو ،چاہے وہ کاغذ جعلسازی ہی کا شاہکار کیوں نہ ہوں اور سچ یہی ہے کہ کافی بڑی تعداد ایسے ہی شاہکاروں کی بھی ہے۔ بھلا ہو جناب عطاالرحمن صاحب کا ، انہوں نے جس نظام تعلیم ایک غلط راہ پر ڈالا تھا اور جس کے نتیجے میں اساتذہ تعلیم سے بہت زیادہ دور اور گریڈوں کے انتہائی شیدائی ہو گئے ہیں، یہ نظام اپنی انتہا کو پہنچ چکا اور اگلے دو چار سالوں میں اسے مکمل تباہی سے دو چار ہونا ہے۔ بچے گا وہی جس کا مضمون پر عبور ہو گا۔ جو کٹ پیسٹ کا نہیں حقیقی علم کا ماہر ہو گا۔میں ایسی باتیں کہنے سے ٹلتا نہیں اور میرے بہت سے ساتھی،میرے بزرگ اور نوجوان ریسرچر مجھ سے نالاں رہتے ہیں۔

میں نے اسلامی نظام تعلیم کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا۔ میرے ایک بزر گ جو مجھے بڑے بھائی کی طرح عزیز ہیں۔ مجھ سے کچھ نالاں ہوئے ۔ اب کیا کہوں۔ وہ جہاں ساری عمر پڑھاتے رہے، جہاں کی کئی نسلوں کو انہوں نے سنوارہ ، وہاں میں نے بڑ ے غور سے دیکھا اور جائزہ لیا۔ اسلامی نظام تعلیم تو دور کی بات، اسلامی بھائی چارہ، مہر و محبت اور ایک دوسرے کے لئے اچھے جذبات مجھے کسی میں نظر نہیں آئے۔ سارے بہت ہنس مکھ ہیں ۔ مسکرا کر ملتے ہیں، مگر کوئی دوسرے کی سلامتی کا خواہستگار نہیں۔انہیں دیکھ کر مجھے ایک انگریزی کہادت یاد آتی ہے کہ شیریں زبانیں ہمیشی بدی کو مائل ہوتی ہیں۔وہاں کا ماحول ساری یونیورسٹی سے کافی مختلف ہے۔ لگتا ہے کہ وہاں کے طالب علم ابھی سکول سے باہر نہیں نکلے۔ اساتذہ کو پڑھانے سے دلچسپی کم ہے۔ سینئر سارے کے سارے ایک دوسرے سے الجھتے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے دریغ نہیں کرتے۔منافقت عام ہے۔وہ اساتذہ جو خود امانت اور دیانت کا پیکر نہیں وہ کسی کو کیا سکھائیں گے۔یہ ضرور ہے کہ کہیں لڑکا اور لڑکی پر پرزے نکالتے نظر آئیں تو کاٹنے میں دیر نہیں کی جاتی۔کاش ہم انہیں یہ بتا سکیں کہ اب جب کہ مخلوط تعلیم ہماری مجبوری بن گئی ہے تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے رہنا ہے، اک دوجے کا احترام کیسے کرنا اور غیر ضروری گفت و شنید سے پرہیز کیوں کرنا ہے۔مگر افسوس ہم کوئی ایسی تعلیم دینے میں ناکام ہیں۔کچھ مدرسوں کے حوالے سے بات ہوئی۔ میری استدعا ہے کہ قران حکیم اور احادیث کو جتنا بھی سلیبس میں رکھیں وہ اس طرح پڑھائیں کہ اس کا مفہوم نوجوان کی روح میں اتر جائے۔ آپ کا پڑھایا ہوا جوان امامت کے لائق ہو، نکاح کے چند کلمات کہہ سکتا ہو، نماز جنازہ پڑھا لیتا ہو۔ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں کسی پروفیشنل مولوی کا محتاج نہ ہو بلکہ یہ کام خوشی سے خود انجام دے سکے۔ سائنسی مضامین کو مشرف بہ اسلام کرناہمارے بس کی بات نہیں۔اس بحث میں الجھنے سے بچنا ہی اچھا ہے۔

انسانی وسائل کی تنظیم (Human Resource Management) آج کے دور کا ایک ضروری مضمون ہے۔وقت کے ساتھ جب مختلف اداروں کا سائز بہت وسیع ہوا تو ورکرز کی بھرتی، ان کو کام کی سپردگی، ان کا نظم ونسق اور ان کے مسائل کا حل ایک بڑا کام تھا۔ اس سارے کام کو سنبھالنے کے لئے اس مضمون کی ضرورت پیش آئی۔شروع میں یہ مضمون کچھ مختصر تھا مگر وقت کے ساتھ اسے ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا گیا۔ آج یہ ہر ادارے کی ضرورت ہے اور ملک بھر کی یونیورسٹیاں اس مضمون کو علیحدہ بھی اور بہت سے مضامین کے ساتھ ملا کربھی پڑھا رہی ہیں۔ لیکن جہاں مینجمنٹ کی بات ہوتی ہے اس کا مطلب انسانی وسائل کی تنظیم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یونیورسٹیوں میں ایک مضمون ہوتا تھا لائبریری سائنس۔اس کے لوگ کتابوں کا نظم و نسق سنبھالتے اوردیکھتے ہیں۔ جدید دور میں اس کا جدید نام انسٹیٹیوٹ آف انفرمیشن مینجمنٹ رکھ دیا گیا ہے۔مینجمنٹ کا لفظ شامل ہونے سے ہمارے ارسطو حضرات نے اس کو مینجمنٹ سائنسز کا حصہ قرار دے کر اس انسٹیٹویٹ کے ڈائریکٹر کو ان تمام شعبوں کا ڈین قرار دے دیا ۔وہ لمبے عرصے تک اس حیثیت پر تعینات رہے۔ یہ کوئی اچھنبھے کی بات نہیں اس ملک میں ساری تعیناتیاں حوالوں سے ہوتی ہیں، رشتہ بنا لیا جاتا ہے۔ اب انہیں بدل دیا گیا ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے دور میں سائنس فاؤ نڈیشن کے چیرمین ایک ایسے شخص کو تعینات کر دیا تھا جس کا مضمون پولیٹکل سائنس تھا کہ وہ بھی سائنس کا بندہ ہے،تو ایک ہنگامہ بپا ہو گیا تھا۔ویسے سیاست بھی ایک سائنس ہے اور ہمارے سارے سیاستدان پوری طرح سائنٹسٹ ہیں اور ماشا اﷲ پاکستان ان کی تجربہ گاہ ہے۔سائنس تو تجربات ہی کا علم ہے ۔پولیٹیکل سائنس والے کی تعیناتی پرشور اس لئے مچا کہ زرداری صاحب ایک سیاستدان تھے مگر یونیورسٹیاں اور ان کے پروفیسر چونکہ انتہائی مقدس ہیں اس لئے کسی کو اس حادثے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ باتیں یہ بھی تلخ ہیں ۔ بہت سوں کو گراں گزریں گی مگر ’’آواز دینے آیا تھا سودائی دے گیا‘‘۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 21 Articles with 24054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.