الحمدللہ اگر اس کی زندگی اس کے حق میں بہتر ہے تو بخش دے، سترہ سال کے انتظار کے بعد ماں بننے والی ایک عورت کے صبر و حوصلے کی داستان

image
 
یہ کہانی سعودی عالم اور دل کے مایہ ناز ڈاکٹر پروفیسر خالد الجبیر نے بیان کی ہے ۔ اس کہانی میں مسلمانوں کے لیے ایک ایسا سبق پوشیدہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر وہ نہ صرف اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں-
 
اس کہانی کو ہم خالد الجبیر ہی کے الفاظ میں بیان کریں گے
ایک دفعہ میں نے ایک ڈھائی سالہ بچے کی سرجری کی جو کہ ہر لحاظ سے کامیاب تھی مگر آپریشن کے اگلے ہی دن صبح کے وقت نرس نے مجھے بتایا کہ بچے کے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور اسکی سانسیں رک گئی ہیں ۔ میں فوراً بچے کی طرف بھاگا اور 45 منٹ تک اس کے دل کا مساج کرتا رہا تاکہ اس میں اگر زندگی کی کوئی رمق ہو تو اسکو زندگی کی طرف لوٹا سکوں-
 
بلاآخر ہم اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے اور بچے کے دل نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت میں بچے کے والدین کے پاس گیا تاکہ ان کو اس کی حالت کے بارے میں بتا سکوں۔ کسی بھی ڈاکٹر کے لیے یہ مرحلہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کو ان کے پیارے کے حوالے سے کوئی بری خبر دیں میں نے بچے کے والد کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ان کو نہ پاسکنے کے بعد بچے کی والدہ کی طرف بڑھا اور ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا-
 
میں نے ان کو بتایا کہ بچے کی حلق سے اندرونی طور پر خون جاری ہے جس کی وجہ ہم نہیں جان پا رہے مگر اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ بچے کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے۔ مجھے امید تھی کہ بچے کی ماں یہ سن کر رونا دھونا شروع کر دے گی۔ مجھے دہائی دیں گی مجھ پر الزام لگائیں گی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا میری بات پورے صبر اور حوصلے سے سننےکے بعد انہوں نے الحمد للہ کہا اور بات ختم کر دی-
 
دس دن کے بعد بچے نے ہلنا جلنا شروع کر دیا ہم خوش تھے کہ ہماری امیدوں کے برخلاف بچے کا دماغ بھی درست کام کرنے لگا تھا۔ مگر بارہویں دن ایک بار پھر حلق میں دوبارہ سے اندرونی طور پر خون جاری ہو گیا اور دل نے کام کرنا چھوڑ دیا اس بار 45 منٹ تک کے مساج کے باوجود اس بچے کے دل نے کام کرنا شروع نہیں کیا اور میں نے ایک بار پھر بچے کی ماں کو بتا دیا کہ اس کے بچے کا دل کام کرنا چھوڑ چکا ہے اور کچھ ہی دیر میں وہ کسی بھی بری خبر کے لیے تیار ہو جائے اس بار بھی اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا اس نے کہا کہ الحمدللہ اگر اس بچے کی محفوظ رہنے میں کوئی بہتری ہو گی تو اللہ ضرور کوئی سبب بنا دے گا-
 
اللہ کی قدرت سے بچے کے دل نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا۔ مختصر سے عرصے میں اس بچے کے دل نے چھ بار اس طرح کام کرنا چھوڑا اور خودبخود چھ بار دوبارہ سے زندگی کی طرف لوٹا یہاں تک کہ گلے کے ماہر ڈاکٹر نے آپریشن کر کے اندرونی طور پر بلیڈنگ کو روک دیا اس سارے عمل میں ساڑھے تین ماہ گزر گئے-
 
بچے کی حالت میں بہتری آرہی تھی مگر وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ جب اس نے ہلنا جلنا شروع کیا تو ہمیں یہ انکشاف ہوا کہ اس کے سر میں پس جمع ہونا شروع ہو گئی ہے جو کہ اس سے قبل میں نے کبھی کسی مریض میں نہیں دیکھی تھی۔ اس بچے کی حالت کو شدید خطرہ لاحق تھا میں نے اس کی ماں کو ایک بار پھر اس سب سےآگاہ کیا اس کو جواب اس بار بھی ہمیشہ کی طرح وہی الحمدللہ تھا  اس بچے کو فوری طور پر سرجیکل یونٹ لے جایا گیا جہاں پر اس کے دماغ کا آپریشن کیا گیا اور وہ ساری پس نکالی گئی- تین ہفتوں تک زندگی اور موت کی کشمکش سے گزرنے کے بعد بچہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا مگر اس بار اس کے خون میں انفیکشن ہو گیا انفیکشن اتنا شدید تھا کہ بچے کے جسم کا درجہ حرارت 106 ڈگری تک جا پہنچا تھا۔ ایک بار پھر بچے کی اس خطرناک صورتحال کے بارے میں جب میں نے اس کی ماں کو بتایا تو اس نے وہی جملے دہرائے کہ الحمدللہ اگر اس بچے کی محفوظ رہنے میں کوئی بہتری ہو گی تو اللہ ضرور کوئی سبب بنا دے گا-
 
یہ بچہ بیڈ نمبر 6 پر تھا اسی دوران بیڈ نمبر 5 پر موجود بچے کو بخار ہو گیا اور اس کی ماں نے رونا دھونا مچا دیا کہ ڈاکٹر کچھ کریں ورنہ میرا بچہ مر جائے گا میں نے اس عورت کو کہا کہ بیڈ نمبر 6 والے بچے کو 106 بخار ہے مگر اس کی ماں کا صبر دیکھیں جواب میں اس عورت نے کہا کہ یہ عورت تو بے حس ہے اس کو کوئی احساس نہیں ہے میں اس جیسی نہیں ہو سکتی-
 
اس پل مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ایک جملہ شدت سے یاد آیا کہ اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔ میں نے اس سے قبل اتنا صبر اور حوصلہ کسی اور انسان میں نہیں دیکھا تھا جس حوصلے سے میری یہ بہن اپنے بچے کی بیماری کی یہ آزمائش برداشت کر رہی تھی اور ایسے ہی لوگوں کے لیے حدیث میں کسی نہ کسی خوشخبری کا وعدہ کیا گیا تھا-
 
ساڑھے چھ مہینے کی محنت اور کوششوں کے بعد بچہ زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا مگر اس کی حالت یہ تھی کہ اس کا سینہ کھلا ہوا تھا جہاں اس کے دل کو دھڑکتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا وہ بچہ نہ کچھ دیکھ سکتا تھا نہ سن سکتا تھا اور نہ ہی محسوس کر سکتا تھا- اس کی زندگی صرف آتی جاتی کچھ سانسوں کا نام تھا اس سارے وقت میں وہ ماں ہر روز بچے کے کپڑے بدلتی اس کی دیکھ بھال کرتی-
 
ڈھائی مہینوں کے بعد معجزات ہونا شروع ہو گئے اور بچہ تیزی سے زندگی کی طرف لوٹ آیا اس نے چلنا پھرنا شروع کر دیا اس نے دیکھنا، بولنا اور ہنسنا بھی شروع کر دیا یہ سب اس کی صابر ماں کو اللہ کی جانب سے دیا جانے والا انعام تھا جو کہ کسی معجزے سے کم نہ تھا-
 
اس کہانی کا اختتام یہاں نہیں ہوتا بلکہ ابھی اس کہانی کا وہ مرحلہ باقی ہے جس نے نہ صرف مجھے شاک کیا بلکہ اشکبار بھی کر دیا۔ اس بچے کے ہسپتال سے جانے کے ڈیڑھ سال بعد ایک دن میرے وارڈ بوائے نے بتایا کہ ایک صاحب اپنی بیگم اور دو بچوں کے ہمراہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جب میں نے ان کے ملنے کا مقصد دریافت کیا تو وارڈ بوائے نے لا علمی کا اظہار کیا-
 
جب میں ان سے ملا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ اسی بچے کے ماں باپ ہیں وہ بچہ اب پانچ سال کا ہو چکا تھا اور بہترین صحت کا حامل تھا اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی بھی تھا جو کہ صرف چار مہینے کا تھا ۔میں نے ان کا استقبال کیا اور اس بچے کے والد کی عمر کو دیکھتے ہوئے ان سے مذاق میں پوچھا کہ یہ چار مہینے والا بچہ ان کو تیرواں بچہ ہے یا چودھواں-
 
ان کا جواب مجھے حیران کرنے کے لیے کافی تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا دوسرا بچہ ہے اور جس بچے کا میں نے آپریشن کیا تھا وہ ان کا پہلا بچہ تھا جو اللہ نے ان کو سترہ سال کے طویل انتظار کے بعد عطا کیا تھا ان کے اس جواب پر میں خود پر قابو نہ رکھ سکا-
 
میں نے ان صاحب کو کاندھوں سے پکڑ کر اپنے کمرے کی طرف لے کر گیا اور ان سے پوچھا کہ ان کی بیوی کیا ہے؟ سترہ سال بعد ملنے والی اولاد کسی کو کتنی عزیز ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا میرے لیے مشکل نہیں ہے مگر اس اولاد کی تکلیف پر اس صبر کا مظاہرہ کرنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے-
 
ان صاحب کا کہنا تھا کہ اس عورت کے ساتھ میری شادی کو انیس سال ہو چکے ہیں اس دوران بغیر کسی شرعی عذر کے میں نے کبھی اس عورت کو تہجد کی نماز چھوڑتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ہے میں نے کبھی اس عورت کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی ہے- میں جب بھی کہیں باہر سے گھر واپس آیا اس نے بہت خوشدلی سے میرا استقبال کیا۔ اس عورت کی ان تمام خصوصیات کے سبب شادی کے انیس سال گزرنے کے باوجود میں اس عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ میرے دل میں اس کی عزت کا اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: