|
|
یہ کہانی سماجی رابطوں کے ایک صفحے ہیومن آف ممبئی میں
ایک خاتون (پیج پر نام ظاہر نہیں کیا جاتا)کی جانب سے شئیر کی گئی جس میں
انہوں نے اپنی زندگی کے وہ واقعات بیان کیے جن کو پڑھ کر ایک عورت کی
بہادری اور حوصلوں کے بارے میں جاننے میں مدد ملتی ہے- |
|
اس میں ان کا کہنا تھا کہ میری شادی سترہ سال کی
عمر میں میرے والدین کی مرضی سے ہوئی۔ میں نے اس وقت صرف میٹرک کا امتحان
دیا تھا۔ میرے شوہر شادی کے شروع کے دنوں ہی میں بیمار رہنے لگے تھے اور اس
کے لیے میں نے ان کو کئی بار دوائیں کھاتے بھی دیکھا تھا لیکن میں نے جب
بھی ان سے ان کی بیماری کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کی تو وہ مجھے مارنا
پیٹنا شروع کر دیتے اور کہتے کہ یہ وٹامن کی گولیاں ہیں- |
|
ان کا مجھ سے شادی کا سب سے بڑا مقصد ایک بیٹے کا حصول
تھا۔ جس کا اظہار وہ مجھ سے بار بار کرتے تھے۔ اس دوران میں امید سے ہو گئی۔
میرے گھر ہسپتال میں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام میں نے کستوری رکھا جس
کا میرے شوہر کو بہت دکھ تھا اور انہوں نے ہسپتال ہی میں مجھے مارنا پیٹنا
شروع کر دیا اور بیٹی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا- |
|
|
|
میں بیٹی کے ساتھ گھر آگئی اسی مار پیٹ میں تین ماہ گزر
گئے اور میرے شوہر کی بیماری میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ ان کو ہسپتال لے
کر گئی تو ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میرے شوہر ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں- |
|
میں نے جب اس بارے میں اپنے شوہر سے پوچھا تو ان کا کہنا
تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کو ایڈز ہے مگر ان کو یہ شادی ان کے والدین کے
دباؤ کے سبب کرنی پڑی۔ اور یہ سب کچھ انہوں نے بیٹے کی خواہش میں کیا مگر
بدقسمتی سے اس کی جگہ ہماری گود میں کستوری کی صورت میں بیٹی آگئی جس کو
تحفے میں یہی بیماری ملی جبکہ اسی دوران میرے شوہر کی موت ایڈز کے باعث ہو
گئی- |
|
اس کے بعد جب میں نے اپنا اور کستوری کا ٹیسٹ کروایا تو
مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ہم دونوں بھی ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔ رپورٹ لے کر
جب گھر آئی تو لوگوں نے ہم سے ملنا جلنا ختم کر دیا اور ہماری حیثیت معاشرے
میں اچھوت سی ہو گئی- |
|
اس وقت میں کستوری کی طبیعت بھی بگڑنا شروع ہو گئی اسکو
ٹی بی تشخیص ہوا مگر ڈاکٹروں نے ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کی وجہ سے اس کا
علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وجہ سے صرف دو سال کی عمر میں میری بیٹی نے
سسک سسک کر بغیر علاج کے جان دے دی۔ میں تنہا رہ گئی میری فیملی نے ڈاکٹروں
کے خلاف کیس فائل کر دیا مگر میں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی- |
|
|
|
اسی دوران میری ملاقات میرے اسکول کی پرنسپل سے ہوئی
جنہوں نے مجھے تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ یہاں تک کہ انہوں نے میری ایک
ٹیچر کو مجھے پڑھانےکے لیے میرے گھر بھی بھیجنا شروع کر دیا میں نے کستوری
کی کمی کو کتابوں سے پورا کرنا شروع کر دیا- |
|
یہاں تک کہ میں نے سوشل ورک میں ماسٹر مکمل کر لیا مگر
اس کے باوجود ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کے سبب ہر ایک نے مجھے نوکری دینے سے
انکار کر دیا لوگوں کے رویے کے سبب مجھے ایک دفعہ تو ایک مہینے میں 13
مکانات تبدیل کرنے پڑے۔ مالک مکان کسی ایچ آئی وی پازیٹو کو اپنے گھر پر
رکھنے کو تیار نہ تھے اسی دوران ہائی کورٹ سے بھی میرے کیس کا فیصلہ آگیا
جس میں مجھے اس بات کا اختیار دیا گیا کہ یا تو میں ڈاکٹروں کی غفلت کا
ہرجانہ 2 لاکھ روپے وصول کروں یا پھر اس کی جگہ مجھے ایک سرکاری نوکری دی
جائے- |
|
میں نے نوکری کو فوقیت دی اور مجھے آسام میں ایڈز کنٹرول
کے شعبے میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی کونسلنگ کی نوکری مل گئی۔ جہاں پر میں
ایچ آئی وی کے مریضوں کی مدد کرتی اور ان کو مختلف ہنر سیکھنے کی ترغیب
دیتی۔ سال 2004 میں میں نے آسام میں مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کی مدد سے
ایک ایسی این جی او بنا لی جو کہ لوگوں کو ایڈز کے حوالے سے ٹریننگ دیتے
تھے- |
|
میری خواہش تھی کہ میں کسی طرح اپنی بیٹی کی مختصر زندگی
کو ایک نام اور ایک پہچان دے سکوں میں نے اس کے نام پر اس کی سالگرہ والے
دن ایک یتیم خانہ قائم کیا۔ اس کے علاوہ میری این جی او ایچ آئی وی پازیٹو
بچوں کی تعلیم اور رہائش کی ذمہ داری بھی اٹھاتی ہے- |
|
حالیہ دنوں میں ہمیں ایک چار سال کا بچہ کچرے میں سے ملا
جس کی ماں کی ایڈز کے سبب موت ہو چکی تھی اور وہ اس دنیا میں تنہا تھا۔ اس
کی پرورش کی ذمہ داری میری این جی او نے لے لی۔ آج میری کستوری تو نہیں ہے
مگر اس جیسے بہت سارے بچے مجھے ممی کہہ کر پکارتے ہیں تو میرا خون بڑھ جاتا
ہے اور میں ان سب لوگوں کے لیے ایک مثال بن جانا چاہتی ہوں جو کہ ایچ آئی
وی پازیٹو ہونے کا مطلب زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں- |