عائشہ یاسین (کراچی)
کراچی میں نہ بارش ہوئی، نہ کہیں بجلی کی تاریں گریں، نہ پانی میں کھڑے
الیکٹرک کے پول میں بجلی دور جانے کی وجہ سے بچی کو کرنٹ لگا اور نہ ہی بچی
گھر سے نکل کر محلے میں کھیلنے گئی پر ایک ننھی پری اس دنیا سے کے الیکٹرک
کی وجہ سے اپنی ماں کی گود میں چل بسی۔ 10 ماہ کی بچی بجلی کی طویل
لوڈشیڈنگ کے باعث کراچی کی سخت گرمی برداشت نہ کر سکی اور ہسپتال کے دروازے
پر ہی دم توڑ دیا۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق حبس موسم اور گرمی سے وہ متاثر
ہوئی چوں کہ صبح سے بجلی غائب رہی تو بے چینی اور اضطراب میں مبتلا رہی۔
بچی تھی شاید اس کی قوت مدافعت نے ساتھ نہیں دیا۔ شاید وہ اس ظلم کی عادی
نہیں تھی۔ وہ تو شاید بے حسی کی بھی عادی نہیں تھی۔ اس قدر گرمی اور
سلگائیں والی گرمی جس سے گھروں کی دیواریں تک تپ رہی ہوں۔ ایسے وقت حکومتی
اداروں کی جانب سے صرف الرٹ جاری کردیئے جاتے ہیں کہ گرمی کی شدت زیادہ
ہونے کا امکان ہے۔ کیا اس گرمی کی شدت سے نمٹنے کے اقدام بھی اٹھائے جاتے
ہیں؟ کیا یہ جرم نہیں؟ ہنستے کھیلتے بچی کا چلا جانا کیا یہ دکھ نہیں
دیتا؟افسوس اس بات کا ہے کہ ہم عوام ہر حال میں کے الیکٹرک کے جائز نا جائز
بلوں کو بھرتے ہیں پھر بھی ہمیں اس تپتی گرمی میں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ
کا سامنا رہتا ہے۔ آئے دن الیکٹرک کے والٹیج کے سبب تو کبھی لائٹ، پنکھا،
فریج تو کبھی ٹی وی کے خراب ہوجانا اور اس کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے
ہیں۔ ہم کس سے سوال کریں۔ ہم کس سے ان اداروں کی شکایت کریں خو ناحق ہم
عوام کی جان و مال کی دشمن ہیں۔ کیا یہ ہی جمہوریت ہے جہاں ہماری کوئی
سنوائی نہیں ہوتی۔ کیا آئے دن بجلی کے تاروں اور کھمبوں سے بچے، بوڑھے،
جوان کرنٹ لگنے سے مرتے ہیں کیا کبھی کسی نے کوئی ایکشن لیا۔ کیا کسی نے ان
سے پوچھا کہ آپ کس حق کے تحت ہمارے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ نہیں کرتے؟
کیا قانون نے ان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ یہ جب چاہے جیسے چاہیں بر بریت
کا مظاہرہ کرتے رہیں؟ عوام کرے تو کیا کرے؟ احتجاج کرے تو کس کے سامنے؟ کیا
اب بھی ہم الیکٹرک بلوں کا پھاڑ دیں تو ہم کو بجلی ملے گی؟ کیا ہمارے بچوں
کی قیمتی جانیں واپس آجائیں گی؟ کیا اب کبھی کوئی غفلت نہیں برتی جائے گی؟
نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ چوں کہ ہماری آوازیں مٹی تلے دب جائے گی اس لیے
آواز اٹھانے کو اور حق مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں کہہ کر ہم اپنی بچی مٹی
تلے داب آئے ہیں۔ یہی کہہ کر کہ وہ اتنی ہی زندگی لے کر آئی تھی۔ واہ کیا
راہ فرار ہم نے ڈھونڈا ہے کہ انسانوں کے معاملات بھی تقدیر اور تقدیر بنانے
والے کے ہاتھ میں دے دیا۔ افسوس ہوتا ہے۔ بہت افسوس کہ ہم کس طرف نکل پڑے۔
ہم کس قدر بے حس اور بے مروت ہوچکے۔ ہماری احساسات و جذبات سب مردار ہوچکے۔
ہم سب تماشبین کے صف میں کھڑے ہوکر بے خوف اور بے خطر اپنی باری کا انتظار
کر رہے ہیں۔ ہم ابھی دوسروں کی بے بسی اور دکھ کو موبائل فونز میں ویڈیو
بنانے اور اس کو وائرل کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم نے یہ تو جان لیا کہ کوئی
نیکی کی بات سنو تو فورا اس کو وائرل کرو۔ اس کو دوسروں تک پہنچاو کیونکہ
یہ صدقہ جاریہ ہے۔ پر ہم بھول گئے کہ نیکی کی بات کو پھیلانے سے پیشتر نیکی
پر عمل کرنا فرض ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنا فرض بھول گئے
ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کے لیے ہم نے فلسفیانہ عذر اور دلائل تلاش کر لیے
ہیں۔ ہم ہر نیک عمل سے فرار چاہتے ہیں۔ ہم حقوق کی بات نہیں کرتے۔ ہم صرف
اور صرف اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے زبان سی رکھی ہے اور آنکھوں
کواندھا کرلیا ہے۔ ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ہم موت کا شمار کرتے ہیں
لیکن انسانی موت کی جو تکلیف اور غم ہے اس کو محسوس نہیں کرتے۔ کاش ہمارے
اداروں کو بھی احساس ہوجائے کہ اپنے پیارے کے مرنے کا غم کیا ہوتا ہے تو
شاید وہ عوام کی تکلیفوں کا سبب نہیں مداوا بنیں۔ آج الیکٹرک سپلائی نہ
ہونے کے باعث ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی نے جان دی ہے۔ ایسے ہی بے شمار بجے
تڑپتے ہوں گے۔ بیمار افراد جو سانس اور فشار خون میں مبتلا ہیں لوڈشیڈنگ کے
باعث کس اذیت کا شکار رہتے ہوں اس کا ہمیں ادراک نہیں۔ اب تو فکر اس بات کی
ہے کہ ابھی کراچی میں شدید بارشوں کی پیش گوئی ہے۔ اﷲ جانے ان کے الیکٹرک
کی وجہ سے کس کس معصوم نے جان سے جانا ہے، کس کس کی گود اجڑنی ہے کیا معلوم
ہے؟ کون پوچھنے والا ہے؟ کیا یہاں کوئی قانون نافذ ہے؟ نہیں ہے کوئی قانون
کوئی آرڈیننس۔ مرنے والے کا تماشا ہوگا۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر تنقید کا
شور ہوگا۔ لواحقین کے ماتم کو چسکے لے لے کر آگے بڑھایا جائے۔ پھر پریس
کانفرنس ہوگی۔ پھر کمیٹی بنے گی۔ ہر موت کو ایک حادثے کا نام دے دیا جائے
گا اور فائل بند کردی جائے گی۔ نہ کوئی مدعی ہوگا، نہ کوئی ملزم اور نہ
کوئی مجرم۔
|