بیمار خون پر پلنے والا بے رحم مافیا

 پچھلے دنوں پیشہ وارانہ کام کے سلسلہ میں ایک پرائیویٹ ہسپتال جانا ہوا, وہاں فارمیسی پر ایک ادھیڑ عمر باپردہ خاتون عملے سے الجھ رہی تھیں, ادویات کے بل کا معاملہ تھا, خاتون کا اصرار تھا کہ پیسے کچھ مزید کم کریں, جب کہ فارمیسی والے کا موقف تھا کہ جتنا کم کر سکتے تھے کر دیے اب مزید کوئی گنجائش نہیں, تھوڑے بحث مباحثے کے بعد اس خاتون نے اپنے بوسیدہ سے ہینڈ پرس میں سے چند مڑے تڑے نوٹ نکالے اور جلدی سے کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کی طرف بڑھاتے ہوئے بھرائے ہوئے لہجے میں بولیں ؛ " بیٹا میرے پاس یہی رہ گئے ہیں, اب اور کہاں سے لاؤں, پچھلے تین چار دن سے جو کچھ پاس تھا,چیک اپ, ایڈمیشن اور ٹیسٹوں کی مد میں اسی ہسپتال کی بھٹی میں جھونک چکی, اب جسم پر ان کپڑوں کے ساتھ یہ کھال باقی ہے, اتار سکتے ہو تو اتار لو "

کاؤنٹر پر بیٹھے موٹی توند والے شخص نے لپک کر پیسے اٹھائے, گِنے تو تین ہزار کے لگ بھگ بل سے کوئی ساڑھے چھے سو روپے کم بنتے تھے۔ موصوف نے فوراً کیلکولیٹر اٹھایا,حساب کیا, شاپر میں سے کچھ ادویات واپس نکالیں, اور 2400 کا بل بنا کر خاتون کو ادویات والا تھیلا تھما دیا۔ وہ خاتون تو چلی گئیں, لیکن ان کا کہا گیا آخری جملہ, بھلے کاؤنٹر پر بیٹھے اس بے حس اور شقی القلب شخص کے اوپر سے گزر گیا ہو گا, لیکن اس جملے کا آخری حصہ کسی بھی صاحبِ درد کا دل چیرنے کے لیے کافی تھا۔
اس حقیقت سے تو اب کوئی بھی ناآشنا نہیں رہا کہ ہمارے ڈاکٹرز, میڈیسن کمپنیاں, اور ٹیسٹنگ لیبز والے کیسے کیسے پرافٹس کی بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں, ڈاکٹرز فارماسیوٹیکلز کمپنیز کے ساتھ طے شدہ ٹارگٹس پورا کرنے کے لیے ایک مریض کو چند ضروری ادویات کے ساتھ ساتھ کئی کئی غیر ضروری ادویات بھی تجویز کر دیتے ہیں, اب بھولے بھالے مریض کو کیا پتا کہ کون سی دوا ضروری ہے اور کون سی غیر ضروری۔۔ اسے چار و ناچار سب ہی لینا پڑتی ہیں۔ ادویات کے اس شعبے میں کمائی کا اس قدر اندھیرا ہے کہ انسان سب کچھ دیکھتے سنتے ہوئے بھی کچھ دیکھنے, سننے اور سمجھنے سے قاصر ہوا کرتا ہے۔ اور بلاشبہ یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ڈاکٹرز کی نہ سمجھ آنے والی لکھائی, اور الٹی سیدھی بے ترتیب لائنوں کے پیچھے کیا کیا راز چھپے ہوتے ہیں, اور ایک دوائی سارا شہر چھان مارنے کے باوجود بھی مریض کو وہیں سے کیوں ملتی ہے جہاں سے اسے ملنا ہوتا ہے۔ لیکن میں یہاں کچھ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاھتا۔۔۔ اس لیے بھی کہ جہاں ہر جگہ کالی بھیڑیں انسانی شکل میں پائی جاتی ہیں وہیں صاف شفاف اور اجلے کردار کے حامل بےداغ لوگ بھی موجود ہوتے ہیں, اور مبادا کہ کسی ایک شعبے کے کچھ بدصورت اور بدنما چہروں کے سبب ان مٹھی بھر فرشتہ صفت عناصر پر بھی کوئی حرف آئے یا وہ بھی شک و شبہ والی نظروں سے دیکھے جائیں, میں محض اسی پر اکتفا کرنا مناسب سمجھتا ہوں اور یہ کہ بحرحال اپنے معاشی وابستگیاں بھی اسی امر میں پوشیدہ ہیں کہ محض معاملے کے قبیح, نجس اور متعفن پہلوؤں کو ہی اجاگر کیا جائے۔

وطن عزیز کہ جس کا شمار تھرڈ ورلڈ کنٹریز میں ہوتا ہے, اور جہاں کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے سسک سسک کر پل رہے ہیں, اور روازانہ بھوک افلاس اور نامناسب معاشی حالات کے سبب درجنوں لوگوں کی خود کشیوں کی خبریں اب معمول کی باتیں ہیں۔ وہاں شاید انسانی صحت سے جڑے اس پیشہ کے اکثریتی لوگوں میں سے انسانیت یا انسانی ہمدردی کے آثار ناپید ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بے حسی اور پتھر دلی ان کی رگوں میں رچ بس چکی ہے۔ اور واقعی یہ سب عمل کسی بے رحم قصائی کا انسانی کھال ادھیڑنے کے ہی مترادف ہے۔

یقیناً اس سب عمل کے پیچھے مادیت پرستی اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس کا عنصر کارفرما ہے, اور جس میں انسان کی ظاہری آنکھ سوائے اپنی مادی لذتوں اور فطری خواہشوں کے حصول کے نہ کچھ دیکھ پاتی ہے اور نہ دماغ ہی کچھ سمجھ پاتا ہے,چاہے اگلے کے رگوں سے بچا کھچا بوسیدہ خون ہی کیوں نہ نچڑ نچڑ کر باہر آ رہا ہو۔ اس کے علاوہ اس سفید دھن کے کاروبار میں ایک اور چیز اس کھیل کے کھلاڑیوں کو بڑی معاون ہے اور وہ یہ کہ اس شعبے میں جذباتیت کے عنصر کا بھی بڑا عمل دخل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اس دھندے کی تمام تر مضبوط اور مستحکم عمارت ہی ہمارے انسانی جذبات و احساست کے ستونوں پر قائم ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مثلاً میں کسی ہسپتال میں ہاسپٹلائزڈ اپنے کسی فیملی ممبر والد, والدہ, اولاد, بیوی یا کسی بھی قریبی عزیز کی صحت پر کبھی بھی کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا, کیونکہ اپنوں کے جان سے زیادہ تو کچھ بھی اہم نہیں۔۔۔ یا دوسری صورت میں کچھ کمپرومائز کرنا بھی چاہوں بھی تو اس لیے نہ کر پاؤں گا کہ میری ناک کا مسئلہ ہے, یہ سماج و معاشرتی سٹیٹس آڑے آئے گا کہ "فلاں مرتا مر گیا اور یہ کچھ بھی نہ کر سکا", یا "فلاں نے فلاں اپنے کا ٹھیک سے علاج نہیں کرایا, علاج کرایا جاتا تو بچ جاتا", " فلاں کے لیے فلاں سے زیادہ پیسہ اہم تھا"۔۔وغیرہ وغیرہ

میں اپنے کسی پیارے کی ہیلتھ ریکوری لیے اپنا بینک بیلنس تو کیا آسمان سے تارے تک توڑ لانے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہوں۔ اگر پاس کچھ بھی نہیں تو ایسی مجبوری کے عالم میں ادھار بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ دوست, یار, رشتے دار عزیز کام آ جاتے ہیں, اور نہیں تو سود پر رقم کے کاروبار تو گلی گلی محلے محلے میں کھلے ہی پڑے ہیں۔ اور اگر کچھ بھی نہ بن پڑے تو اپنے گھر, زمین جائیداد کو بھی تو بیچا جا سکتا ہے, رہن یا گروی بھی تو رکھوایا جا سکتا ہے, گھر کی قیمتی چیزوں سمیت اپنے کاج کاروبار یا روزمرہ کے دھندے میں دیانت, امانت, شرافت اور ضمیر تک کو بھی تو بیچا جا سکتا ہے۔ اور بخدا یہ سب ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے, اور شاید آپ میں سے بھی کئی ایک نے اپنے آس پاس, گلی محلے میں ایسا ہوتے ضرور دیکھا ہو گا۔ میں ذاتی طور پر ایسے ایک شخص کو جانتا ہوں جو اپنی والدہ کا علاج سود پر قرض لے کر کراتا رہا, اور بالآخر وہ سود کے بوجھ تلے ایسا دبا کہ ایک دن خود کشی نے اسے اس تکلیف سے نجات دی۔

بس یہی وہ اللہ دین کا چراغ ہے جو ہمارے ہاں شعبہ طب والوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے, اور جس کو رگڑ رگڑ کر ڈاکٹرز اور ان سے وابستہ ذیلی شعبوں کے وابستگان نے اپنی معاشی زندگیوں میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے۔ میڈیسن کمپنیوں میں اوپر بیٹھے مارکیٹ ریسرچرز اور سیلز ایکسپرٹس ہمارے اجتماعی معاشرتی رویوں میں پنپنے والی اس اجتماعی جذباتی کیفیت کے بھونچال سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ مریض کے لیے کسی آب حیات سے کم نہیں اور مریض کے لواحقین کو اسے ہر قیمت پر خریدنا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو فرنشڈ گھر, چمچماتی گاڑیاں, فارن ٹوورز, فائیو سٹار ہوٹلنگ, شاپنگز اور گراسریز سے لے کر ماہانہ بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگی اور بچوں کی ٹیوشن, سکول فیس کی ادائیگی تک وہ ڈاکٹرز کو ممنون کرنے کا شاید ہی کوئی موقعہ ہو جسے اپنے ہاتھ سے جانے دیں یا شاید ہی کوئی خدمت ہو جو بجا لانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں, اور پھر شاید ہی کوئی ایسی فرمائش یا خواہش ہو جو کسی سفید کوٹ والے کے منہ سے نکلی ہو اور اگلے چند لمحوں یا چند دنوں میں پوری نہ ہوئی ہو۔

ہمارے جیسے تھرڈ ورلڈ کنٹریز میں جہاں لوگوں کی بنیادی ضروریات, خوراک اور غذائی اجناس کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی صحت کے معاملات پہلے ہی گھمبھیر صورت حال سے دوچار ہیں, اور روزانہ درجنوں لوگ علاج معالجے کی نامناسب سہولیات کے باعث مر رہے ہیں۔ اور روزانہ بھوک افلاس اور نامناسب مالی حالات کے سبب لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔ وہاں ایک مخصوص طبقے پر یوں نوازشات کی بھرمار اور مادیت پرستی کا یوں عریاں سیلاب ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔

اگرچہ یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ ملک عزیز کے خراب تر معاشی حالات اور روز افزوں بڑھتی بے روزگاری کے آسیب زدہ ماحول میں اس شعبے نے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار مہیا کر رکھا ہے اور ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ ایک غریب کا خون نچوڑ کر اس سے کسی دوسرے کے گھر میں خوش حالی کے لگائے گئے پودے کو سینچا جائے, بلکہ اس کے لیے کسی ایسے ٹھوس میکانزم کی ضرورت ہے کہ جس سے ایک توازن کی فضا پیدا ہو, اور جس سے غریب کے پسینے سے عرق آلود سِکّے کسی کی عیش و نشاط کا سامان نہ بن سکیں, اور ان خوش پوش نوجوانوں کا روزگار بھی برقرار رہ سکے, جو یقیناً اپنے تئیں رزق حلال کمانے کے لیے گھروں سے نکل کر در در کی خاک چھانتے ہیں۔

اور ایسا ممکن ہے, ادویات ساز کمپنیاں اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر وہ اپنے نمائندگان کو تحفے تحائف اور نذرانوں کے ٹوکرے دئیے بغیر اور ڈاکٹرز پر چیک اور کیش کے بنڈل نچھاور کیے بغیر صرف اس مقصد کے لیے اپنے نمائندگان کو ڈاکٹرز چیمبرز میں بھیجیں کہ وہ انہیں میڈیکل سائنس میں ہونے والی جدید اصلاحات, روزمرہ ڈویلپمنٹس اور نت نئی ریسرچز سے آگاہ کرے گا, اور ادویات سازی کی صنعت میں تحقیق و پیش رفت اور جدید میڈیسن کے حوالے سے لٹریچر اور مواد شئیر کر کے اپنی اور کمپنی کی انفرادیت برقرار رکھے گا, تو یہ نہ صرف ایک مستحسن اقدام ہو گا بلکہ یہ سب ڈاکٹر اور اس کے مریض کے عین مفاد میں بھی ہو گا۔ اور اگر اسی پس منظر میں فارما کمپنیز کے نمائندگان ڈرگ سیمپلز اور اپنی ادویات کی خصوصیات اور ان کی افادیات بیان کریں اور ڈاکٹر کو اپنی کانونسنگ تیکنیکس کی بنا پر قائل کرنا بھی چاہیں, تو اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ اور بلاشبہ یہی اعتدال اور کسی بھی پیشہ کے متعلقہ اصول و ضوابط کا حق ادا کرنے مثبت راہ ہے۔ اور اسی بنیاد پر ڈاکٹر اپنے مریض کے حق میں انصاف کر سکتے ہے۔ لیکن اس کے لیے مادیت پرستی و مال و زر کے حصول کی اندھی دوڑ بھاگ سے نکل کر اجتماعیت اور مہذب معاشرتی و سماجی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

 

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 22 Articles with 15243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.