خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان

تحریر:سیدہ قرۃالعین
ماں نے بچوں کو زہر دے کے خود بھی خودکشی کر لی۔امتحانات میں نمبر کم آنے پہ طالبہ نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔گھریلو حالات سے تنگ آکر لڑکی نے خود کوآگ لگا لی۔کئی دن مزدوری نہ ملنے پہ مزدور نے اپنی جان لے لی۔یہ اور ایسے بہت سے واقعات ہم آئے روز خبروں میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔ اسلام میں خودکشی کوصریحاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانی جان کو انسان کے پاس امانتاًرکھا ہے۔
’’اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘

انسان کی جان ہی اس کی اساس ہے اور اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا اس پر حق ہے۔ اگر آپ جسم کے کسی ایک حصے کو بھی تکلیف پہنچائیں گے تو روز قیامت آپ سے پوچھا جائے گا آپ سے حساب لیا جائے گا کہ اے میرے بندے میں نے تجھے یہ جسم و جان امانت کے طور پہ سونپے تھے تو تُو ان میں خیانت کا مرتکب کیوں ہوا؟

ہمارے معاشرے میں جس قدر تعلیم بڑھتی جا رہی ہے اسی قدر ہم ذہنی پسماندگی کاشکار ہوتے جا رہے ہیں لبنان میں میڈیکل کے ایک طلب علم عبداﷲ کاشورا کے اپنی ماں کے نام آخری الفاظ یہ تھے۔’’ماں میں جارہا ہوں کیونکہ زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے‘‘ اسی طرح سی اے کے امتحانات میں کم نمبر آنے پہ طالب علم نے اپنی جان لے لی۔ایسی ہر خبر کے بعد ہمارے پاس ایک فتویٰ ہوتا ہے کہ خودکشی حرام ہے۔ کیا کبھی میں نے، آپ نے یا ہم میں سے کسی نے بھی یہ سوچنے یا کھوج لگانے کی ضرورت محسوس کی کہ اس کے پس پردہ اسباب کیا تھے؟

کبھی اس امر کے پیچھے ہفتوں کی بھوک ناچتی ہے تو کبھی ہمارے طعنے کسی کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں کبھی ہم اپنے والدین کی امیدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو چکے ہوتے ہیں تو کبھی اس معاشرے کے نام نہاد گھٹیا پیمانوں پہ پورا نہیں اتر پاتے اور تب زندگی کی قید سے آزاد ہونا ہی ہر مسئلے کا حل نظر آتا ہے۔مگر نہیں قصور وار اکیلا خود کشی کرنے والا نہیں قصور وار میں بھی ہوں، قصور وار آپ بھی ہیں قصوروار ہم سب ہیں ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ کوئی اپنے اندر کیسی جنگ لڑ رہا ہے؟ اس کو اس جنگ سے لڑنے کی طاقت دینے کے بجائے ہم اپنے تیر کمان سمیٹے میدان میں نکل آتے ہیں۔بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ خود کشی کرنا ایمان کی کمزوری ہے تو محترم انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جب ہم سب ایک انسان کو بیچ منجدھار چھوڑ کے صرف تماش بین بنیں گے تو یقیناً اس کی ہمت، اس کے ارادوں کے ساتھ ساتھ اس کا ایمان بھی کمزور ہوتا چلا جائے گا۔ دوسروں کے گریبان میں جھانکنے سے پہلے ہم کبھی ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہمت کر لیں تو ان کمزور ایمان والوں کا بھی بھلا ہو جائے گا اور ہمارے ایمان کی مضبوطی ان پہ بھی اثرانداز ہو جائے تو اس میں کیا برا ہے۔

وہ ماں جو ہفتوں ہم ایمان والوں کے انتظار میں بیٹھی رہی کہ کوئی تو مسیحا اترے گا من و سلویٰ لے کے مگر اسے کیا خبر کہ مسیحا تو بعد میں اترے گا مگر من و سلویٰ نہیں قاضی بن کے حرام موت کا فتویٰ لے کے۔عبداﷲ کاشورا سے کس نے پوچھا کہ اس کی زندگی کیوں مشکل ہو رہی ہے ایسے کتنے عبداﷲ ہمارے ارد گرد زندگی کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں ہمیں کیا خبر۔خبر تو تب ہو گی جب اخبار میں خبر چھپے گی۔اے سی والی گاڑی میں بیٹھ کے بڑے بڑے مالز سے شاپنگ کر کے راستے میں تپتی دھوپ میں نڈھال بیٹھے مزدور کی تکلیف کا اندازہ ہم کب لگا سکتے ہیں ہم تو اگلے دن ناشتے کی میز پہ رنگا رنگ لوازمات سجائے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے اس کی موت کی خبر کو ایک مکھی کے مرنے جتنی اہمیت بھی نہیں دیں گے۔فکر ہمیں اپنے ایمان کی کرنی چاہیے اس ایک جان کی قرض دار میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں،ہم سب ہیں۔روز قیامت جوابدہ ہم بھی ہوں گے اپنی آنکھیں اور کان بند اورزبانیں کھلی رکھنے پہ
 

Attiya Rubbani
About the Author: Attiya Rubbani Read More Articles by Attiya Rubbani: 20 Articles with 14955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.