تحریر:کرن عصمت ماہم ، راولپنڈی
عدم برداشت اور شدت پسندی ایک ایسی کیفیت ہے جہاں انسان ہر چیز اور ہر
واقعہ کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھتا ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی درست سمجھتا
ہے۔ یہ کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس مرض کے شکار انسان اپنے خلاف یا
اپنے خیالات و عقائد کے خلاف ہر آدمی کو مکمل طور پر غلط سمجھ کر اسے واجب
القتل قرار دینا عین عبادت سمجھتا ہے۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے پاکستان ایک پر امن ملک تھا پھر آہستہ آہستہ عدم
برداشت اس حد تک پروان چڑھی کہ آج پورا ملک ایک طرح سے سولی پر لٹکا ہوا
نظر آتا ہے۔ ملک کا امن و امان مخدوش ہو چکا ہے۔ نہ کسی کی زندگی محفوظ ہے
نہ عزت اور نہ املاک، اس عدم برداشت کے کلچر نے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری، لوٹ
ماراور ڈاکہ زنی جیسی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ اب یہ صورت حال کسی طرح بھی
قابو میں نہیں آ رہی ہے۔
دراصل عدم برداشت ہی شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے
اور مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام انسانوں سے محبت اور بھائی چارے
کا درس دیتا ہے مگر چند ایمان فروشوں نے عوام اور بین الاقوامی برادری کی
نگاہ میں اسلام اور مسلمانوں کی شکلیں تبدیل کر کے رکھ دی ہیں۔ بیرونی
ممالک میں مسلمانوں کے کردار اور مذہب اسلام کو خراب اور مسخ شدہ کر کے پیش
کیا جا رہا ہے اس سازش میں دوسرے مذہب کے لوگ شامل ہیں مگر ان کے ساتھ
ہمارے چند اپنے بھی شامل ہیں جو اسلام کی ساکھ خراب کرنے میں ملوث ہیں اور
اپنے اپنے مفاد کی خاطر اپنے زیرِ اثر مراکز میں انتہا پسندی اور شدت پسندی
کو فروغ دے رہے ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر پاکستانی لوگ ہی نہیں بلکہ پوری بین
الاقوامی برادری کو بھی تشویش ہے اور سب اسی کوشش میں ہیں کہ اس ناسور کو
سرے سے پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے لیے اسلام ہمیں رہنما اصول دیتا
ہے۔ رواداری، تحمل مزاجی، مساوات، بھائی چارہ، عدل و انصاف اور درگزر اسلام
کی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و امان کا دور دورہ ہو سکتا
ہے لیکن بدقسمتی سے ہم دین کی اصل روح سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ جن معاشروں
میں ان خوبیوں کی کمی ہوتی ہے وہاں بے چینی، شدت پسندی، جارحیت، غصہ، تشدد،
لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد نفسا
نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے۔یہ نفسانفسی ہی معاشرے کو دیمک کی طرح کھا جاتی
ہے۔
بد قسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے
رحجان میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے عام لوگوں کی
اکثریت قوتِ برداشت کھو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت تو معاشریسے
عنقا ہوچکی ہے۔ ہر فرد دوسرے کوبرداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے۔ بے
صبری، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پہ دھرا دکھائی دیتا ہے جو کہ بڑھتے
بڑھتے ایک مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد پسندی کی وجوہات مختلف ہیں جن کی وجہ سے
معاشرہ تنزلی کا شکار ہو رہا ہے ان وجوہات میں غربت، بے روزگاری، تعلیم سے
دوری، غیر معیاری تعلیمی نظام، جہالت، دین کا غلط استعمال، سیاسی کلچر
وغیرہ شامل ہیں۔۔اس عدم برداشت اور تشدد پسندی نے اخلاقیات کا جنازہ نکال
دیا ہے۔ معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے ہر کوئی عدم برداشت اور تشدد
پسندی کے جال میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔
کسی بھی ریاست کا یہ بنیادی فرض ہوتا ہے کہ اپنے شہریوں کو با عزت زندگی
مہیا کرے۔ پاکستان میں غربت زیادہ ہے۔ حکومت کو ایسے منصوبے پیش کرنے چاہیں
جن سے غریب طبقے کو غربت سے نکالاجا
سکے۔ سرمایہ دارانہ نظام ختم کیا جائے۔بیت المال کانظام رائج ہو اورامیر
طبقہ غریب اور بے کس طبقے کی مدد کرے۔
بے روزگار انسان بھی منفی رویوں کا شکار ہوجاتا ہے اور پاکستانی معاشرے میں
جو عناصر شدت پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دے رہے ہیں، تو ان میں سے ایک
عنصر بے روزگاری بھی ہے۔ طویل عرصے تک بے روز گار رہنے والے افراد اپنے روز
مرہ کے مسائل اور فاقوں سے تنگ آ کر اکثر انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ بے
روزگاری کی اصل وجہ قابلیت اور اہلیت کو نظر انداز کر کے سفارش اور رشوت
خوری کی حکمرانی ہے۔ حکومتی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ سفارش اور رشوت
جیسے ناسور ختم کو کرے۔نوکری بغیر قابلیت نہ دی جائے اور ہنر مندی کو فروغ
دینے کے رحجان کو ترجیح دی جائے۔
لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق شہری اور دیہی، دونوں علاقوں میں کم ہے۔
دوسری طرف معیاری تعلیم کا فقدان ہے نچلے طبقے کے لوگ تو تعلیم حاصل کر ہی
نہیں پاتے اور پھر غیر فعال افراد بن جاتے ہیں۔غیر تعلیم یافتہ انسان محدود
سوچ کا مالک ہوتا ہے اور اسی لیے افراد کے مزاج میں عدم برداشت کا مادہ کچھ
زیادہ ہی شدت سے موجود ہوتا ہے۔
تعلیم سے عدم دلچسپی اور جہالت ایک بڑی لعنت ہے۔ لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے
کا شعور اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ سرکاری اسکولوں میں سستی تعلیم اور مفت
کتابوں کے ذریعے لوگوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے
لیکن پھر بھی دیہی علاقوں میں یہ شرح ضرورت سے کم ہے۔ شہروں میں پھر بھی
حالات کسی حد تک اطمینان بخش ہیں۔ سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنائی
جارہی ہے۔ بچے اور استاد کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ بچہ
آج پڑھے گا لکھے گا تو کل ان کا ہی سہارا بنے گا۔ایک جاہل ان پڑھ اور تعلیم
یافتہ انسان ایک جیسی زندگی نہیں گزار سکتے۔۔تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنا
ضروری ہے اورمعیاری تعلیمی نظام بھی متعارف کرانا از حد ضروری ہے۔
جہالت وہ پھندا ہے جس میں پھنس کر انسان اپنے اشرف المخلوقات ہونے کے شرف
کو بھی بھول جاتا ہے۔ جو کچھ کرتا ہے پھر اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ جو
کچھ کر رہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ چاہے وہ کسی کا خون کا کرنا ہو، کسی بے
بس عورت کی عزت کو تار تار کرنا ہو، یا پھر کسی معصوم کمسن بچی کو اپنی
ناپاک ہوس کا نشانہ بنانا ہو۔ جہالت کی حد تو یہ ہے کہ انسان اپنا اچھا برا
سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ اگر معاشرے میں تعلیم کے زیور پر قدغن لگائی
جائے اور بچوں کو اس خیال سے اسکول نہ بھیجا جائے کہ پڑھ لکھ کر یہ کون سے
کہیں اعلی افسر لگ جائیں گے تو پھر اس معاشرے میں جرائم کی بہتات اور
برداشت کے حدود کو پار کرنا ایک معمول کی بات بن کے رہ جائے گا۔
کچھ مبلغین اور نام نہاد علماء اسلام کی اصل روح سے زیادہ اپنے مکتبہ فکر
کو اہمیت دیتے ہیں اور دین کی تبلیغ کے بجائے اپنے عقائد کا پرچار کرنے کے
لیے قرآن سے اپنے مطلب کی چند منتخب شدہ آیات کی تبلیغ کرتے ہیں جس کے
نتیجے میں معاشرے میں شدید تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہ
ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے علماء صرف اور صرف اﷲ کی رضا کی خاطر دین کی حقیقی
تصویر پیش کریں، اﷲ کے عطا کردہ دین کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کریں
اور معاشرتی زندگی میں دینی تعلیم کی اہمیت کو صحیح معنوں میں اجاگر کریں۔
معاشرے کے بگاڑ میں بہت سا حصہ بیرونی ثقافت کا بھی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ
پاکستانی معاشرے کو بیرونی ثقافت کے اثرات سے دور ہی رکھا جائے عوام اپنی
ثقافت کو فروغ دینے میں فخر محسوس کریں اور اس کو محفوظ بنانے کے لیے ہر
ممکن کوشش کریں۔
اس سلسلے میں میڈیا ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے جس کی بنیاد پر انسانی
معاشرہ کسی بھی سوچ کو اپنے ذہن میں جگہ دے سکتا ہے لیکن آج کے دور میں
میڈیا نے جو ماحول بنا رکھا ہے اس میں خیر سے زیادہ شر کا عنصر شامل ہے۔
کسی فلم کو دیکھیں تو اس میں آپ کو قتل و غارت اور غنڈہ گردی دکھائی دے گی
اور ڈھائی تین گھنٹے کی فلم کے آخری سین میں برے کام کا برا نتیجہ تو دکھا
دیا جاتا ہے لیکن فلم بینوں میں ہر عمر اور ہر قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کے کچے ذہن فلم میں دکھائے گئے جرائم
اور ان کو ادا کرنے والے کرداروں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اسی طرح مختلف نجی چینلز سے جو ڈرامے گھروں میں دیکھے جاتے ہیں وہ معاشرتی
برائیوں، سیاسی و خاندانی چپقلش چالیں اور سازشیں دکھاتے اور اسی بہانے
سکھاتے نظر آتے ہیں۔ میڈیا کا جو مثبت رول معاشرے میں ہو سکتا ہے اس سے
انکار نہیں کیا جا سکتا اس لیے حکومت کو چاہیے کہ میڈیا کو ریگولیٹ کرے اور
شدت پسندی دکھانے پر سخت پابندی لگائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماں باپ کو
اپنے بچوں سے ربط بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور اول تو کمسن بچوں کو موبائل
فون نہ دلائے جائیں اور یا پھر جہاں تک ممکن ہو ان پر نظر رکھیں اور انہیں
تشدد پر اکسانے والے موبائل گیمز وغیرہ سے دور رکھیں۔
معاشرتی نا انصافی اور زیادتی پر اگر بات کی جائے تو پاکستانی معاشرے میں
اس کا جو مکروہ چہرہ سامنے آتا ہے، شاید ہی کسی اور معاشرے میں نظر آئے۔
کسی بھی فرد کے ساتھ زیادتی خواہ وہ انفرادی طور پہ ہو یا پھر اس کے کنبے
کے ساتھ ہو، اس فرد کو شدت پسندی اور عدم برداشت کے دہانے پر پہنچانے کے
لیے جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ اگر معاشرے میں کسی فرد کے ساتھ کوئی
زیادتی ہوتی ہے، جو کہ ہم روز ہی دیکھتے ہیں کہ کمزور پر طاقت ور اپنی طاقت
کا استعمال بے دریغ اور کھلم کھلا کرتا ہے تو وہ مظلوم ایک حد تک تو برداشت
سے کام لیتا ہے لیکن اس کے اندر ہی اندر ایک لاوا سا پک رہا ہوتا ہے اور جب
یہ لاوا پک کر باہر نکلتا ہے تو اس کی صورت شدت پسندی کا بھیانک روپ دھار
لیتی ہے۔ مہذب معاشرے میں کسی بھی انسان کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جاتا
ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کے مخالف اس کے ہمدرد سمجھدار لوگ اس
کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں جو اس کا بہترین سہارا بن جاتے ہیں اور وہ اس
شخص کی ذہنی کیفیت کو شدت پسندی کی طرف جانے سے روک دیتے ہیں۔ دیکھا جائے
تو معاشرتی نا انصافی ہی اس بیماری کی جڑ ہے جو اچھے سے اچھیانسان کو بھی
شدت پسند بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس موضوع پر جتنا لکھا جا ئے وہ کم ہے۔ بس اگر ہم خود چاہیں تو اپنے معاشرے
کے ماحول کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔ شدت پسندی اور عدم برداشت کو ختم کرنے
کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی طور پہ اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔ اس
تبدیلی کے لیے انسان جب تک خود کوئی عملی اقدام نہیں کرے گا تب تک دنیا کا
کوئی قانون ان معاشرتی برائیوں کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔
ہمیں ہی سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی تربیت دیں۔ ان میں ایسی
خصوصیات کو اجاگر کریں کہ وہ معاشرے میں ایک مثبت زندگی گزار سکیں۔ اپنے
درمیان موجود نفرت کو مٹائیں، محبت کا راستہ ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم
اپنے مستقبل کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔
قرآن میں فرمایا گیا کہ
’’یعنی بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو
نہ بدلے۔ ‘‘
اس فرمانِ الہیٰ کو مولانا ظفر علی خان نے بڑی خوبصورتی سے شعر کے روپ میں
ڈھالا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی کے حالت بدلنے کا
ﷲ تعالیٰ ہم پہ رحم فرما ئے اور ہمیں من حیث القوم یہ توفیق دے کہ ہم اپنے
معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کر کے پر امن بنا سکیں۔
آمین ثم آمین
|