آئے روز ایک سے بڑھ کر ایک شرمناک واقعات سامنے آتے رہتے
ہیں جومعاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہروی کی طرف واضح اشارہ ہے سوال یہ
پیدا ہوتاہے ۔کیا معاشرے کے منہ پر کالک ملنے والے مسلمان کہلوانے کے لائق
ہیں۔۔ نہیں نہیں ۔۔نہیں یہ درندے تو انسان کہلوانے کے بھی حق دار نہیں
مسمان تو وہ ہوتاہے جس کے ہاتھ اور زبان ے دوسرے محفوظ رہ سکیں پھر یہ کون
ہیں؟ بندہ سوچے کیا تیری کیا میری عزتیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ ۔ تصور کی
آنکھ سے دیکھیں تو ایسے ہی ہوا ہوگا کہ یہ درندے یہ جنسی جنونی جب کسی کو
ورغلا کر اغوا کرتے ہیں یا پھر بھولی بھالی بچیوں یاپھر بچوں کو ورغلاکر
انپی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں تو مظلوم نہ جانے کتنے ترلے کرتے ہوں گے،انہیں
اﷲ رسول کے واسطے دیتے ہوں گے، انہوں نے کتنی منتیں کی ہوں گی لیکن روتے،
تڑپتے، بلبلاتے جسموں کی اتنی تذلیل کی انسانیت بھی شرمندہ ہوگئی کیا بیتی
ہو گی ان بچوں پر جن کی جنت کو ان کی آنکھوں کے سامنے تار تار کر دیا
جائے؟؟ جب بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماں کا ریپ کیا گیازمین پھٹی نا
آسمان گرا یقینا ایسے دلخراش واقعات اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ جاتے ہیں ؟
لیکن کیا ان ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا؟؟۔ کیا اس متاثرہ
خاتون کو انصاف مل سکے گا؟؟۔ جن بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماں کو نوچا
گیا ، کیا یہ واقعہ ان کے دماغ سے نکالا جا سکے گا؟؟ کیا پولیس آئندہ ایسے
واقعات کی روک تھام کر سکتی ہے؟؟ کیونکہ اس ملک میں معصوم بچے بچیوں کے
ساتھ ریپ کے واقعات میں مسلسل اضافہ انتہائی خوفناک اور شرمناک ہیں ۔ اگر
ان درندوں کو پکڑ کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع کر کے سنگسار کر دیا جائے
تو شاید متاثرین کو انصاف مل جائے درندگی کا شکار ہونے والوں نے اگر ریاست
، قانون کی بے بسی کی چیخیں سنی ہیں تو ملزمان کی آہ و پکار بھی سنیں گے۔
آئندہ پھر 10 سال تک ایسا واقع بھی پیش نہیں آئے گا۔۔کیونکہ جب جنرل ضیاء
نے 1980 میں اسی طرح ریپ کے ملزمان کو سرعام پھانسی دی تھی کئی روز تک ان
کی لاشیں لٹکتی رہی تھیں تو شنیدہے کہ 10 سال تک ایسا واقعہ پیش نہیں آیا
تھا۔سوشل میڈیا پر آئے روز ایسی گردش کرتی پوسٹیں لمحہ ٔ فکریہ ہے اب معصوم
بچوں ک ساتھ شرمناک سلوک اور پھر ان کو قتل کردینا انتہائی درندگی اور
سفاکی ہے ایسے مجرم کسی رعائت کے حقدارنہیں ہیں پاکستان مسلمانوں کا ملک
ہے۔ اب یہی کہاجاسکتاہے کہ ان بھیڑیوں ان درندوں کو عبرت ناک سزادی جائے
تاکہ حواکی بیٹیاں ا اور معصوم بچے ان د رندوں سے محفوظ رہ سکیں یا پھر
وزیر ِ اعظم عمران خان کی تجویزپرعمل کیا جائے کہ جنسی درندوں کو مردانہ
صفات سے محروم کردیا جائے یہی ان کاعلاج ہے۔ |