تحریر:صائمہ نذیر نوشہرہ
اس نفسا نفسی اور مصروف زندگی میں جہاں ہر انسان اپنی مستی میں مست اور
اپنی خوش میں خوش ہے جہاں سکھ کم اور دکھ زیادہ لیئے اور دیئے جا رہے ہیں
وہاں گلے شکوؤں کا دور عروج پہ ہے
ایسے نازک وقت میں ہم نے سوچا کیوں نہ خوشی کا راز جانا جائے کیونکہ خوشی
پہ ہر انسان کا بھر پور حق ہے۔راقم الحروف نے کچھ دوست احباب سے خوشی کا
راز پوچھا جس پر انتہائی عمدہ جوابات ملے ۔
ان جوابات کی روشنی میں آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر یہ خوشی کہاں چھپی ہوئی ہے؟
بقول میرے استاد محترم م سر عرفان وزیر’’ خوشی کا راز عزت دینے میں ہے‘‘۔
جبکہ تانیہ بی بی کے خیال میں ’’خوشی مخلص رشتوں میں ہے‘‘۔
دیگر حلقہ احباب نے اسی سوال کا کچھ ان الفاظ میں جواب دیا
ارم ناصر: اﷲ کی عبادت میں
ماہ نور: سکون میں
شاہدہ نارووال: معاف کر دینے میں
نایاب: حقیقت تسلیم کرنے میں
طیبہ گل: ضمیر کے مطمئن ہونے میں
ندا انور: سچی توبہ میں خوشی کا راز نہاں ہے
نائمہ : دوسروں کی مدد کرنے میں
علشبہ: سکون میں خوشیِ چھپی ہوئی ہے
ثناخیال: من کی خوشی میں
ولید صاحب کے خیال میں خوشی کا راز پانچ وقت کی نماز میں ہے
اقرا علی: خاموشی اختیار کرنے میں
ثناگل: اپنے راز اپنے آپ تک محدود رکھنے میں خوشی ہی خوشی ہے
سارہ: والدین کا سر پہ سایا ہونے میں زندگی کی اصل خوشی ہے
آمریہ: والدین کی خوشیوں میں انسان کی اپنی خوشی ہے
اقرا بشیر: تلاوتِ قرآن میں اصلی خوشی کا راز چھپا ہے
ملائکہ صدیق: سکونِ قلب میں انسان کی اصل خوشی کا راز ہے
ثنابلال: ہماری ذات سے منسلک شخص میں
طیبہ سجاد: ذہنی سکون میں انسان کی خوشی کا راز ہے
میں سب کے عمدہ خیالات کی انتہائی ممنون ہوں بے شک سب نے ایک سے بڑھ کر ایک
راز آشکار کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خوشی کا راز پہچان میں پوشیدہ ہے چاہے
خدا کی پہچان ہو خود کی یا خدا کی مخلوق کی جب ہمیں خدا کی پہچان ہوگئی تو
سمجھ لیں ہمیں خود کی پہچان ہوگئی ہے اور جب انسان کو خود کی پہچان ہو جائے
تو وہ دوسروں کو بھی جاننے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں ہمیں خود سے جڑے لوگوں
کی رشتوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ پھر ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے رشتوں کو ہم
سے کیا چاہیے عزت، پیار، محبت، اپنائیت، احساس، وقت مدد، تسلی یا دلاسہ؟
میرے نقطہ ِ نظر کے مطابق خوشی کا راز دکھ میں چھپا ہے جب تک ہم کسی دکھ سے
نہ گزریں ہمیں نہ تو خوشی محسوس ہوگی نہ خوشی کی قدروقیمت کا اندازہ ہوگا
اور نہ ہی خوشی کی پہچان ہوگی جیسا اندھیرا روشنی کو متعارف
کراتا ہے اسی طرح ہر دکھ کسی نہ کسی ایک سکھ سے ضرور آشنائی دلاتا ہے
|