عروجِ آدمِ خاکی سے اَنجم سہمے جاتے ہیں

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 12 تا 16 !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد خلقنا
الانسان من
سلٰلة من طین 12
ثم جعلنٰه نطفة فی قرار
مکین 13 ثم خلقناالنطفة علقة
فخلقناالعلقة مضغة فخلقناالمضغظة
عظٰما فکسوناالعظٰم لحما ثم انشانٰه خلقا
اٰخر فتبٰرک اللہ احسن الخٰلقین 14 ثم انکم بعد
ذٰلک لمیتون 15 ثم انکم یوم القیٰمة تبعثون 16
اور زمان و مکان کی ہر ایک تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہوگئی ھے کہ ھم نے انسانی جسم و جان کا پہلا جَوہر مِٹی سے کشید کیا ، پھر انسانی جسم و جان کے اُس آبی و خاکی جَوہر کو ایک معینہ مُدت تک رحم مادر میں قیام و قرار دیا ، پھر حیات کے اُس جَوہرِ حیات کو رحمِ مادر کی مُتعلقہ دیوار کے ساتھ مُعلق کرنے کے لیۓ ھم نے سُرخ رنگ کا ایک "ملغُوبہ" بناکر رحم کی دیوار کے ساتھ مُعلق کردیا ، پھر اُس سُرخ رُو ملغُوبے میں ھم نے ایک گاڑھا پَن پیدا کر کے اُس کو گوشت کے ٹُکڑے کی صورت دیدی ، پھر گوشت کے اُس ٹُکڑے کے ساتھ ھم نے ہڈیوں کا ایک مربُوط سلسلہ بھی قائم کر دیا اور پھر جب ہڈیوں کے اِس مُرکب پر ھم نے گوشت کی ایک اور پَرت رکھی تو ھماری تخلیق کا یہ شاہکار ایک بالکُل ہی دُوسری طرز کی حیرت انگیز چیز بن کر ظاہر ہوا ، اَب جس کے پاس بھی چشمِ بصیرت ھے تو وہ دیکھ لے کہ نیستی کو ہستی دینے والا ، اللہ کیسا بَرتَر اَز افکار تخلیق کار ھے ، تُمہاری جان پر موت کا ایک دن آنا ھے اور تُم نے اُس دن مرجانا ھے اور پھر تُمہاری موت کے ویرانے میں زندگی کی ایک نئی بہار آنی ھے اور زندگی کی اُس بہار میں تُم نے زندہ ہو جانا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا حرفِ اَوّل حرفِ عطف واؤ ھے جس نے اِن اٰیات کے سلسلہِ کلام کو اُن اٰیات کے سلسلہِ کلام سے مربوط کیا ہوا ھے جو اٰیات اِن اٰیات سے پہلے گزر چکی ہیں اور جو اٰیات اِن اٰیات سے پہلے گزر چکی ہیں اُن اٰیات کی پہلی اٰیت میں ایک راہ یاب انسان کے ساتھ ایک کام یاب انسان کا تعارف کرایا گیا ھے اور پھر ایک عملی انسان کی اُن عظیم انسانی صفات کا ذکر بھی کیا گیا ھے جن عظیم انسانی صفات کو اپنے علم اور عمل میں لا کر ہر انسان ایک کامیاب انسان بن سکتا ھے ، اُن پہلی اٰیات میں کامیاب انسان کے اُس تعارف کے بعد اِن دُوسری اٰیات میں انسان کے سامنے انسان کی وہ قدیم تاریخ بیان کی جا رہی ھے جس قدیم تاریخ کے اُس اَدنٰی دور سے گزر کر انسان تاریخ کے اِس اَعلٰی دور تک پُہنچا ھے جس اَعلٰی دور میں اِس کو اِس اَعلٰی کتاب کے اَعلٰی علم کے ذریعے یہ اَعلٰی تعلیم دی جارہی ھے کہ تُمہاری حیات کا پہلا جوہر ھم نے آب و خاک میں پیدا کیا تھا ، تُمہاری تخلیق کے اُس پہلے دور کے بعد جب تُمہاری تخلیق کا دُوسرا دور آیا تو تُمہاری حیات کے اُس جوہر کو ھم نے ایک معینہ مُدت تک رحمِ مادر کے اُس مقامِ محفوظ میں پُہنچا دیا جس مقامِ محفوظ نے پہلے تو اُس جَوہر کو خود میں جذب کیا اور پھر اُس جوہر میں خود جذب ہو کر جہان میں اُس حسین اور ذہین جسم کو جنم دیا جس حسین اور ذہین جسم کا نام انسان ھے اور جس حسین اور ذہین جسم کا نام انسان ھے وہ خالقِ عالَم کی اِس تخلیقِ عالَم میں ایک مُعتبر مخلوق ھے ، انسانی تاریخ کا یہ صفحہِ تاریخ سامنے لانے سے قُرآن کا مقصد انسان کو یہ بتانا ھے کہ اِس عالَم کی جو چیز ماضی سے حال میں آرہی ھے وہ چیز حال سے مُستقبل میں بھی جا رہی ھے اور جو چیز حال سے مُستقبل میں جا رہی ھے وہ اپنی حیات کے اِس سفر میں اپنی صورت ضرور بدلتی ھے لیکن وہ اِس سفر کے کسی مقام پر فنا نہیں ہوتی ، تُمہاری زمین پر جتنے انسان چل پھر رھے ہیں وہ سارے انسان تُمہاری زمین کے پہلے انسان کی بدلی ہوئی نئی صورتوں کے ساتھ چل پھر رھے ہیں کیونکہ زمین کے اُس پہلے انسان نے ایک خاص وقت اور ایک خاص مقام پر بقا کی ایک ایک صورت تو قبول کی ھے لیکن فنا کی ایک صورت بھی قبول نہیں کی ھے ، تُم نے سُلالہِ طین سے قرارِ مکین تک جو سفرِ حیات کیا ھے وہ کئی زمانوں کا ایک سفرِ حیات ھے اور اُس ایک سفرِ حیات میں تُم نے کئی صورتیں بدلی ہیں اور پھر رحمِ مادر کے قرار مکین میں بھی تُم ایک ایک صورت کے بعد ایک ایک صورت بدلتے ہوۓ آۓ ہو ، پھر رحمِ مادر سے جنم لینے کے بعد بھی تُم نے بچپن و جوانی اور بڑھاپے کی صورتیں بدلی ہیں اور اَب جب تُم رحمِ مادر سے آغوشِ زمین میں آنے کے بعد خاک سے اَفلاک کی طرف بڑھ رھے ہو تو اَب بھی تُم نے موت کی صورت میں زندگی کا سفر کرنا ھے ، اگر تمہیں اپنی زندگی کے گزشتہ سفر کے بارے میں کوئی شُبہ نہیں ہوا ھے تو تمہیں اپنے آئندہ سفر کے بارے میں بھی کوئی شُبہ نہیں ہونا چاہیۓ اور اِس بات کا یقین رکھنا چاہیۓ کہ تُم پر آنے والی جو موت ھے وہی تُم پر آنے والی وہ نئی زندگی ھے جس زندگی کا یہ عالَم ہمیشہ ہی حیرت و حسرت کے ساتھ مُشاھدہ کر رہا ھے اور بقولِ اقبال علیہ الرحمتہ ؏

عروجِ آدمِ خاکی سے اَنجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جاۓ
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559906 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More