بیواؤں کا عالمی دن اور سماجی و قانونی المیے

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں 23جون کوبیواؤں کا عالمی دن منایاجاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد بیوہ خواتین کو درپیش غربت صحت اور انصاف سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے ، اقوام متحدہ نے 21دسمبر2010کوفیصلہ کیا کہ ہر سال 23جون کو بیواؤں کا عالمی دن منایا جائے گا پہلا بیواؤں کا عالمی دن 23جون2011کو منایا گیا، کہا جاتا ہے کہ لومبا فاؤنڈیشن کے بانی لارڈ لومبا کی والدہ شری متی پشپا وتی لومبا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ دن منانے کا فیصلہ کیا گیا جو خود بھی بیوہ تھی اور انھوں نے بیواؤں کی فلاح و بہبود پر بہت کام کیا ،پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بیواؤں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک انتہائی تکلیف دہ ہے یہاں تک کہ اُنکی جائیدادیں چھین لی جاتی ہیں، اور معاشرے میں تنہااور بے بس کر دیا جاتا ہے،معاشرے میں کچھ ایسے ظالمانہ رویے موجود ہیں جن سے بیوائیں محفوظ نہیں ہیں ،سانچ کے قارئین کرام !دنیا بھر میں بیوہ خواتین کی تعداد کم و بیش 25 کروڑ ہے،ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 1980کی دہائی میں شروع ہونے والی جدوجہد کے دوران ہزاروں کشمیری نوجوان شہید جب کہ کئی بھارتی جیلوں میں قید ہیں ان نوجوانوں کی ہلاکت کی وجہ سے ہزاروں کشمیری خواتین بیوہ اور کئی بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق علاقے میں گزشتہ 31 برس سے جاری جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب افراد شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں معذور ہو چکے ہیں، ہزاروں خواتین نوجوانی میں بیوہ ہو گئی ہیں اور یتیموں کی تعداد اس سے دگنی یا تین گنا بتائی جاتی ہے،رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نوجوان بیوہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کشمیریوں کے لیے ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ پیدا کر دیا ہے جبکہ ایسی خواتین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جن کے خاوند یا بیٹے لاپتہ ہو گئے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو آخری بار سیکیورٹی فورسز کی طرف سے حراست میں لیتے ہوئے دیکھا گیاتھااس کے علاوہ 7000سے زائد ایسی خواتین بھی ہیں جن کے شوہر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اپنوں سے جدا ہوئے ان خواتین کو اب 'نیم بیوہ' اور ان کے بچوں کو 'نیم یتیم' کے طور پر جانا جاتا ہے،اپنے شوہروں سے بے خبر ، یہ خواتین نہ صرف وہ غم برداشت کرتی ہیں جو اپنے شریک حیات سے علیحدہ ہونے کا ہے بلکہ اپنے زندہ رہنے کے لئے بھی مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں ان کے شوہر یا تو ابھی تک بھارتی افواج کی تحویل میں زندہ ہیں یا ان کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں انھیں مردہ نہیں قرار دیا گیا ، لہذا یہ نیم بیوہ ہیں،جبکہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی بیوہ کے ساتھ نارواسلوک رکھا جاتا ہے ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق مسلمانوں کے معاملے میں ، اسلامی علماء کے مابین اتفاق رائے ہے کہ نیم بیوہ چار سال کے انتظار کے بعد دوبارہ شادی کر سکتی ہے تاہم ، یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس کی اصل طور پر پیروی نہیں کی جارہی ہے کیونکہ ان کے سسرال والے نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی جائیداد کنبہ سے باہر چلی جائے، ،دین ا سلام کی تعلیمات میں خواتین خاص طور پر بیوہ کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی بھلائی کا حکم دیا گیا ہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی بیوہ کے ساتھ اچھا سلوک دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ بعض کی جائیداد پر قبضہ کر کے اُنہیں بے بس و لاچار کر دیا جاتا ہے وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں ، حضرت محمدﷺنے عورتوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی ،بہترین برتاؤ ، اچھی معاشرت کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا ’ تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤکرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے والا ہو،(ترمذی ،کتاب المناقب ،باب فضل ازواج النبی ، حدیث ۳۸۹۵)،’ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا ’میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتاہو ں(مسلم کتاب الرضاع ، باب الوصیۃ بالنساء، حدیث ۱۴۶۸)، حضرتِ عائشہ صدیقہؓ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’ مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاؤ (سب کے ساتھ )(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو۔ (المستدرک کتاب الایمان حدیث ۱۷۳)،مشاہدے میں آتا ہے کہ معاشرے میں مرد اگر بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلے تو ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کیلئے دوسری شادی ضروری ہے لیکن اگر کوئی بیوہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلے تو اْس کے اِس قدم کو اچھی نظروں نہیں دیکھا جاتا ، دین اسلام بیوہ عورت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، بیوہ کو بے شمار حقوق دئیے ہیں، حضرت محمد ﷺ نے بیوہ خواتین سے نکاح کرکے مثال قائم کی وہ خواتین اُمت کی مائیں ہیں، پاکستان میں بیوہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی تو بارہا کی گئی لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں ، بیوہ خواتین اپنے ہی رشتوں کے ہاتھوں ظلم وتشدد کا شکار ہوتی ہیں ،لوگوں کے گھروں میں کام کرتی خواتین میں سے اکثریت بیوہ خواتین کی دیکھی جاتی ہے ، بیوہ خواتین اپنی جائیداد سے محروم ہوتی بھی دیکھی جاتی ہیں ،23جون کا دن کے منانے کا مقصد ایسی خواتین اور ان کے بچوں کی فلاح بہبود کے لئے حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر ایسے ادارے قائم کرنا ہونا چاہیے جہاں بیوہ خواتین کی بھر پور مدد کی جا سکے٭

 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 88 Articles with 71724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.