مفتی عزیز کالم لکھنے پر ملنے والی گالیاں، فتوے اور بددعائیں

الحمداللہ میں ایک پاکستانی اور پکا سچا مسلمان ہوں، اللہ کریم نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خاصیت عنایت کی ہوتی ہے، بفضل تعالیٰ مجھے شعور ملاہے، اور لکھنے کی خصوصی طاقت ملی ہے، میں اک کالم نگار ہوں اورحق اور سچ کی بات کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔میرے کالم وطن عزیز کے بہت سے قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بندہ ناچیز کا کالم ’’قوم لوط کی بیماری۔ ابھی تک ہے جاری“ پاکستان کے بیشتر قومی اخبارات کے ایڈیٹوریل صفحہ کی زینت بنا۔ بالخصوص روزنامہ سرزمین اور روزنامہ عوامی للکار نے اپنے خصوصی کلر ایڈیشن میں خاص جگہ عنایت کی۔ کالم ”قوم لوط کی بیماری۔ ابھی تک ہے جاری“ شائع ہونے کی دیر تھی کہ راقم کو مختلف ذرائع سے قلم فروشی، اسلام دشمنی، مدارس دشمنی، مساجد دشمنی اور غیر مسلم قوتوں کا آلہ کار،لبرل مافیا کی ایماء پر لکھا گیا کالم، کالم لکھنے پر گناہگار اور دیگر ننگی گالیاں اور فتوے اور بدعائیں سننے اور دیکھنے کو ملیں۔تحریر کے آخیر میں واضح طور پر سنہری حروف میں درج تھا کہ ”اس تحریر کا مقصد علماء کرام کی توہین کرنا مطلوب نہیں ہے بلکہ علماء کرام کے بھیس میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا مقصد ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ علماء حق مذہب اسلام کا سرمایہ ہیں، جن کی بدولت اسلام کی روشنی گھر گھر میں پھیلی ہوئی ہے“۔ تنقید، گالیاں، اور فتوے دینے والوں نے یقینی طور پر تحریر پڑھی نہیں ہوگی۔ بلکہ کالم کا عنوان دیکھ کر یا شائد چند سطریں جن میں موصوف مفتی عزیز کا نام دیکھ کر ہی بھڑک اُٹھے ہونگے۔ کیونکہ کالم میں نہ تو مذہب اسلام کو حرف تنقید بنایا گیا تھا اور نہ ہی مساجد اور نہ دینی اداروں خصوصا مدارس پر تنقید کی گئی تھی۔مگر کیا ہے کہ ”چور کی داڑھی میں تنکا“ والی مثال ایسے لوگوں پر مکمل طور پر فٹ آتی ہے۔پاکستان میں اک بات تو طے شدہ ہے کہ آپ کھل کر سیاستدان، وقت کے حکمرانوں کے بارے میں لکھ سکتے ہیں بول سکتے ہیں، آپ کھل کر عدلیہ کے فیصلوں کے بارے میں تنقید کرسکتے ہیں، کھل کر نہیں تو دبے لفظوں، اشاروں کنایایوں میں مسلح افواج کی پالیسیوں کے خلاف بہت سا مواد میڈیا پر دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتاہے، مگر انتہائی افسوسناک پہلو یہ ضرور ہے کہ آپ مذہبی رہنماؤں کے خلاف کھل کر کچھ نہیں لکھ سکتے کیونکہ عوام الناس کی اکثریت خوف زدہ ہوجاتی ہے کہ کہیں آپکے خلاف کوئی فتوی جاری نہ ہوجائے۔سب سے پہلے بندہ ناچیز کو مذہب اسلام اور دین اسلام کی عظیم شخصیات کے بارے میں لکھی گئی اپنی تحریروں کو یہاں قلمبند کرنا پڑرہا ہے تاکہ عوام الناس کو یقین دلایا جاسکے کہ بندہ ناچیز الحمداللہ پکا اور سچا مسلمان ہے۔بندہ ناچیز کے قلم سے اسلامی موضوعات پر لکھے گئے کالم کی تفصیل:
(1) امت کا غم خوار نبی ﷺ اور استغفار کی فضیلت۔ (2) ہم کس طرح رحمن کے بندے بن سکتے ہیں۔ (3) صرف ایک مہینے کا مسلمان (4) غزوہ بدر۔ حق کی فتح کا دن (5)نبی کریم ﷺ کے معجزات۔ (6) سوشل میڈیا پر جنت کے مفت ٹکٹ کی تقسیم (7) جمعہ کے دن کی اہمیت اتنی کیوں ہے؟ (8) سودی نظام اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے (9) میرے آقا کا جانثار ساتھی۔ ابوبکر صدیق ؓ (10) پاکستان میں سود کے خاتمہ کے کی جانے والی کوششیں (11) میرے اللہ اور رسول ﷺ کا شیر۔ جناب علی ؓ (12) سورۃ الحجرات اور شان رسالت ﷺ
درج ذیل کالمز کی تفصیل ان دوستوں کی دلی و ذہنی تسکین کے لئے درج کررہا ہوں کہ جن کے مطابق مفتی عزیز کے خلاف لکھا گیا کالم لبرل مافیا اور غیر مسلم قوتوں کے اشاروں پر یا پھر قلم فروشی کرکے لکھا تھا۔
(1) ہم جنس پرستی کے حق میں آواز اُٹھانے والا بدبخت ٹولہ (2) عورت مارچ ٹھیک یا غلط۔ فیصلہ آپکا (3) ویلنٹائن ڈے بمقابلہ شرم و حیا
اب آتے ہیں کالم ”قوم لوط کی بیماری۔ ابھی تک ہے جاری“ جس کی بدولت راقم کو گالیوں، تنقید، فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔موصوف مفتی عزیز جو کہ اب پابند سلاسل ہوچکا ہے اور اس نے اپنے اعترافی بیان میں یہ تسلیم کیا ہے کہ اس نے صابر شاہ نامی طالب علم سے لواطت والا فعل سرانجام دیا تھا۔ کالم شائع ہونے پر اسکے حواریوں نے مفتی عزیز کے اس قبیح فعل پر طرح طرح کی حجتیں قائم کرنے کی ناکام کوشش کی جیسا کہ کسی دوست نے کہا کہ دیکھیں جی یہ بہت بڑے مفتی اور عالم دین ہیں انکے تقریبا 20 ہزار کے قریب شاگرد ہیں جنہوں نے ان سے دین کی تعلیم حاصل کی لہذا انکے بارے میں کالم لکھنا اور اس واقع کو نمایاں کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ کسی دوست نے کہا کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے اگر مفتی موصوف نے توبہ کرلی اور اللہ کریم نے اسکی توبہ قبول کرلی تو پھر آپ کالم لکھنے کی پاداش میں گناہگار ہوجائیں گے، کسی دوست نے ننگی گالیاں نکالیں، تو کسی دوست نے یہ کہا کہ کالم لکھنے والا گناہگار ہوگیا ہے۔اس طرح کسی دوست نے یہ کہا کہ شریعت میں ویڈیو کی شہادت کے طور پر کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کسی دوست نے کہا کہ آپ نے مفتی صاحب پر الزام لگا کر تہمت کا ارتکاب کیا ہے۔کسی دوست نے لکھا کہ کالم لکھنے والے نے مدارس کے خلاف بہت بڑی سازش کی ہے۔اک بہت ہی پیارے دوست نے یہ بدعادی کہ آج آپ نے مفتی صاحب کو گلیمرائزڈ کرکے بدنام کیا ہے، کہیں کل آپ بھی اسی طرح بدنام نہ ہوجائیں۔ (اللہ کریم رحم فرمائے)۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

بندہ ناچیز کا ان تمام دوستوں سے اک سوال ہے کہ اگر قوم لوط والی بیماری کے خلاف لکھنا جرم ہے تونااعوذ باللہ نااعوذ باللہ نااعوذ باللہ، قرآن مجید میں قوم لوط کا ذکر کیوں آیا؟ تو نااعوذ باللہ نااعوذ باللہ نااعوذ باللہ، میں اگر کچھ لکھوں گا تو کہیں کفر کے فتوے ہی جاری نہ ہوجائیں کیا (میرے منہ میں خاک) خدانخواستہ قرآن مجید سے قوم لوط کے حوالہ سے درج قرآنی آیات کو ہٹا دیا جائے نااعوذ باللہ نااعوذ باللہ نااعوذ باللہ؟ اللہ کریم کی بابرکت ذات نے تو قوم لوط کی غلط کاریوں سے اپنے پیارے حبیب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وبارک وسلم کو بذریعہ قرآن مجید و فرقان حمید آگاہ فرمایا تھا۔اور قوم لوط کی غلط کاریوں کا ذکر قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا گیا اور قرآن کا ہر قاری و حافظ قرآن قوم لوط کے بارے میں درج آیات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پڑھتا رہے گا، ان شاء اللہ عزوجل۔بندہ ناچیز کے کالم میں نہ تو مساجد کو حرف تنقید بنایا گیا اور نہ ہی مدارس کو حرف تنقید بنایا گیا۔ ہاں یہ ضرور لکھا گیا کہ کیسے مدرسہ کی انتظامیہ نے منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے موصوف کو مدرسہ سے سامان اُٹھا کر چلے جانے کی سخت ترین سزا سنا دی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مدرسہ انتظامیہ موصوف مفتی کو حوالہ پولیس کرتی۔موجودہ حالات میں سب سے افسوسناک پہلو جو ابھی تک سامنے آیا ہے کہ وطن عزیز کے جید علماء کرام (ماسوائے چندایک) کی طرف سے اس واقعہ پر انتہائی پراسرار خاموشی کا اختیار کرنا ہے۔جب کے ماضی میں یہی دیکھنے اور سننے کو ملتا تھا کہ جیسے ہی کوئی ہم جنس پرستی یا خلاف شریعت کوئی آواز یا حرکت سامنے آتی تو وطن عزیز کے علماء کی اکثریت کھل کر سامنے آتی تھی اور بعض اوقات احتجاجی مظاہرے بھی کرتے ہوئے دیکھائی دیتے تھے۔یقین مانیں جب بھی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ عام مسلمان مدرسہ میں قرآن کی تعلیم دلوانے کے لئے اپنے بچوں کو بھجواتے ہیں اور بعض اوقات اپنے شہر سے سینکٹروں کلومیٹر دور اپنے جگر گوشوں کو اک مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے بھیجتے ہیں۔مفتی عزیز کے حمایتوں سے اک سادہ سا سوال پوچھنے کی جسارت کرنے لگا ہوں، کہ کیا اللہ کریم کی مقدس ترین جگہوں یعنی مساجد اور مدارس میں اللہ کریم کی مقدس ترین کتاب یعنی قرآن مجید کی موجودگی میں بچوں کو لواطت جیسی گندی اور غلیظ حرکت پر مجبور کرنے والے شخص کو توہین مذہب اور توہین قرآن کا مجرم قرار نہیں دینا چاہئے؟ اس طرح کی کالی بھیڑیں یقینی طور پر معصوم ذہن بچوں کے مقدس اور پاک جذبوں کی توہین کی مرتکب ہوتی ہیں۔سب سے اہم بات یہ حدیث مبارکہ ہے جس کو مدنظر رکھ کر کالم لکھا گیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وبارک وسلم کی حدیث مبارکہ ہے جسکا ترجمہ یہ ہے کہ: تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(بحوالہ مسلم، ابی داؤد،المسند احمد)۔ مفتی عزیز کے حمایتی تمام دوستوں سے التجا ء ہے کہ اللہ کا واسطہ ڈال رہا ہوں، اگر برائی کو برائی نہیں سمجھ سکتے تو کم از کم اس طرح کے درندہ کی حمایت بھی نہ کریں۔آخری بات برائی چاہے یونیورسٹی میں ہو، کالج میں ہو یا مسجد یا مدرسہ میں، ہمیں اُسے برائی سمجھنا چاہئے۔ اسی میں مسلم معاشرے کی بقا ء ہے۔ہماری لئے نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ مشعل راہ ہے، احادیث کی کتب میں بہت ہی مشہور و معروف واقعہ درج ہے کہ: حضرت عائشہؓ سے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے (جو آپ ﷺ کے بڑے چہیتے تھے) ایک عورت کی سفارش کی۔ آپ ﷺنے فرمایا تم سے پہلے جو امتیں گزریں وہ اسی وجہ سے تو تباہ ہوئیں۔ وہ کیا کرتے تھے کم ذات (غریب آدمی) پر تو (شرعی) حد قائم کرتے تھے اور شریف یعنی امراء کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم اس پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہؓ (میری بیٹی) بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔سب سے آخر میں کالم کی اشاعت پر گالیاں، دھمکیاں، فتوے اور بدعائیں دینے والے دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انکی وجہ سے اس موضوع پر اک مرتبہ پھر لکھنے کا موقع میسر آیا۔سب دوست خوش رہیں، آباد رہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو صحیح معنوں میں دین اسلام کی سمجھ عطا فرمائے، اور حق سچ اور برائی میں فرق کرنے اور برائی کو بزور بازو، زبان، قلم سے روکنے اور کم از کم دل میں برا تصور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.