کامیاب کون؟

کرن فاطمہ
دنیا میں ہر شخص مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا جوان، خواندہ ہو یا ناخواندہ، امیر ہو یا غریب، ہر ایک اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ کامیابی کے حصول کے لیے ہر ایک نے اپنے اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔ جس کے لیے وہ عمر بھر تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جائز و نا جائز ہر قسم کی تفریق بھلا بیٹھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کامیابی کا وہ معیار ہے کیا؟ جس پر پہنچ کر انسان کو سکون میسر ہوتا ہے۔ ماحول کا جائزہ لینے پر علم ہوتا ہے کہ ہر ایک کے نزدیک کامیابی کا معیار مختلف ہے۔ کسی کے لیے مال و دولت کا حصول کامیابی ہے۔ کسی کے لیے بڑا عہدہ، منصب اور شان و شوکت، کسی کے لیے ڈگری کا حصول، بیرون ملک کا ویزہ اور نوکری مل جانا، کسی کے لیے عالیشان گھر بنا لینا اور کسی کے لیے اپنی محبت کو پا لینا کامیابی ہے۔

آج کے دور میں کسی مرد کو اچھا روزگار مل جائے، کاروبار سیٹ ہو جائے، مالی آسودگی حاصل ہو، خوب صورت بیوی مل گئی، اولاد کی نعمت سے اﷲ نے نواز دیا، بس تو ہمارے معاشرے کے لحاظ سے وہ کامیاب ہو گیا۔ اسی طرح جس عورت کو اچھا دولت مند خاوند اور سسرال مل جائے، اولاد اور وہ بھی نرینہ ہو تو وہ بھی اپنے تئیں خود کو کامیاب سمھجتی ہے۔ لیکن جب ہم بغور مشاہدہ کریں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ جس چیز کو بندہ کامیابی کا حصول سمجھتا ہے اور اپنی ساری جدوجہد اسے حاصل کرنے میں لگا دیتا ہے۔ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد بھی اس کے کھو جانے کے ڈر سے وہ سکون میں نہیں رہتا۔ گویا کہ اس سے علم ہوا کہ آج کی دنیا میں انسانوں نے جو کامیابی کے خود ساختہ معیار بنا رکھے ہیں وہ کامیابی نہیں۔

تو پھر آخر کامیابی ہے کیا؟ کامیاب انسان ہے کون؟ میرے رب نے قرآن عظیم الشان میں واضح الفاظ میں فرما دیا کہ کامیاب کون ہے؟ ’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘ سورہ الاعلیٰ (87: 14) جس نے تزکیہ نفس کر لیا وہ پاک ہو گیا۔ اب یہ تزکیہ نفس ہے کیا؟ تزکیہ نفس کہتے ہیں نفس انسانی میں موجود شر کے غلبے کو دور کرنا اور ہر طرح کے گناہوں کی آلودگیوں، آلائشوں اور اخلاق رذیلہ سے دل کو ستھرا کرنا۔ دل کی گندگی ہے کیا اور دور کیسے ہو گی؟ سائنس نے آج اتنی ترقی کر لی لیکن کوئی ایسا آلہ نہ ایجاد ہو سکا جو دل کی روحانی بیماریوں کو جانچ سکے اور اس کی صفائی کر سکے۔ باطن کی تمام گندگیوں کو دور کر سکے۔ ظاہری بیماریوں کا تو ہم میں سے ہر ایک کو احساس ہوتا ہے اور ہم اس کی لیے معالج سے رجوع بھی کرتے ہیں، لیکن آخر یہ روحانی بیماریوں کا احساس کیسے ہو؟

منافقت اور نفاق، کینہ و کپٹ، بغض و حسد سے، طمع و لالچ، نفسانی شہوانی خواہشات جیسی مہلک بیماریوں کو دل سے دور کیسے کیا جائے؟ اس کام کے لیے ہمیں اہل نظر کو تلاش کرنا ہو گا۔ اﷲ والوں کی صحبت میں رہنا ہو گا۔ قرآن بھی رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے وابستہ رہنا بھی ذریعہ نجات ہے۔لیکن تزکیہ نفس کے لیے اہل اﷲ کا دامن تھامنا بے حد ضروری ہے۔

اﷲ والوں سے تعلق رکھنے کی اہمیت اس مثال سے سمجھ لیجیے۔ آپ ایک برتن میں پانی اور صابن لے کر چوبیس گھنٹے بھی کپڑا ڈالیں رہیں تو کیا وہ خو بخود صاف ہو جائے گا؟ یقیناً نہیں۔ جب کہ صابن بھی کپڑے کو صاف کرتا ہے اور پانی بھی، تو پھر کپڑا صاف کیوں نہیں ہوا؟ اس لیے کہ ایک ہاتھ چاہیے جو اس کو رگڑے، نچوڑے، کپڑے کو گندے پانی سے نکالے، صاف پانی میں غوطہ دے۔ تب کہیں جا کر کپڑا صاف ہو گا۔ یہ جو اﷲ والے ہوتے ہیں یہ بھی ایسے ہی قلوب سے میل و کچیل دور کر دیتے ہیں۔ دل کا تزکیہ کرنا ہے اسے ستھڑا کرنا ہے، سنوارنا ہے تو اﷲ والوں سے تعلق بنانا پڑے گا۔ تب کہیں جا کر باطن کی گندگی دور ہو گی اور تزکیہ نفس حاصل ہو گا۔ اﷲ والوں سے تعلق قائم کیے بغیر اصلاح نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ اور یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اگر جنید بغدادی ؒ یا حسن بصری ؒ جیسے ولی کامل کی تلاش ہو تو پھر طلب بھی اس دور کے طالبین جیسی کامل ہونی چاہیے۔

آج کے دور میں تو جو متبع شریعت ہوں اور سنت کی پیروی کرنے والے ہوں۔ جن کی صحبت سے اﷲ کی محبت پیدا ہو جائے۔ آخرت کی فکر اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو۔ اعمال و اخلاق درست ہونے لگیں۔ لوگوں سے معاملات بہتر ہو جائیں۔ بس جان لیں وہی اﷲ والا ہے۔ ہم جیسے ناقص اور گنہگاروں کے لیے انکی صحبت اور نظر کرم فائدے سے خالی نہیں۔ بس ان کے دامن سے وابستہ ہو کر نفس کا تزکیہ کر لیجیے۔ بلاشبہ کامیابی اور فلاح کا دار و مدار تزکیہ نفس پر ہے۔ دل پاک صاف ہو گیا تو اخروی نعمتیں بھی استقبال کریں گی اور دنیا میں بھی سکون و اطمینان حاصل ہو گا۔ اپنے قول و فعل کا جائزہ لیں اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو سنوارنے کی بھی کوشش کریں۔ جو شخص ایمان کی سلامتی کے ساتھ قبر میں پہنچ گیا بس وہی کامیاب ہے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.