اسلاموفوبیا کا سدباب کون کرے گا؟

اسلاموفوبیا مسلمانوں سے نفرت کرنے، تعصب برتنے کا نام ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے اس کو ’’اسلاموفوبیا‘‘کہا جاتا ہے۔ ’’فوبیا‘‘ (یعنی خوف زدہ ہونا) یونانی لفظ ہے، جس کے معانی خوف اور اندیشہ کے ہیں۔ آکسفورڈ لغت کے مطابق اسلاموفوبیا لفظ کا مطلب ہے ’’اسلام سے شدید ناپسندیدگی یا خوف، ایک سیاسی قوت کے طور پر مسلمانوں کے ساتھ عداوت یا تعصب‘‘۔ یہ نسبتاً ایک جدید لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ کیونکہ لاکھ مخالفتوں کے بعد اسلام جس تیز رفتاری کے ساتھ دنیا میں پھیل رہا ہے اور لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں باطل قوتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں وہ اسلام سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ باطل قوتوں نے اپنے اسی خوف کو دور کرنے کے لئے اسلاموفوبیا کا حوا کھڑا کیا۔ مغرب میں عام طور پر اسلام سے خوف اور مسلمانوں سے کراہت کے لئے اسلاموفوبیا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔اس وقت اسلاموفوبیا یعنی اسلام سے خوف اور گبھراہٹ کی سوچ نے مغرب میں خاص طور پر اور دنیا کے بیشتر غیر اسلامی ممالک میں عمومی طور پر خطرناک شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یورپ و مغرب اس معاشرے کو ایک مثبت معاشرے کی بجائے ایک متعصب معاشرے کی طرف لے جائے گا۔مغربی ممالک میں عام شہریوں کے ذہنوں میں یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ اسلام کے پھیلنے سے ان کی ثقافت اور مذہبی اقدار کو سخت خطرہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلام سے خوف میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ مغربی اخبار گارجین 20جون 2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق’’امریکہ میں ایسے 74? منظم گروپس لوگوں میں مسلمانوں کا خوف پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں سے نفرت کے جذبات کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ مسلم دشمنانہ کام کرنے کے لئے ان پریشر گروپوں کو کئی ملین ڈالر ادا کئے جاتے ہیں‘‘۔ آسٹریلیا کے پانچ بڑے اخبارات میں اس سال اسلامی دہشت گردی، اسلامی شدت پسندی اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے والے عنوانات سے تین ہزار مضامین شائع کئے گئے۔ اوسطاً ہر روز اس سال آسٹریلیائی عوام نے آٹھ اسلام مخالف مضامین پڑھے جن میں صرف یہ تاثر اْبھارا گیا کہ مسلمان بنیادی طور پر دہشت گرد ہیں۔ ان میں سے 152 مضامین اخبارات کے سرورق پر شائع کئے گئے تاکہ سب کی نظر میں آجائیں۔اسلام کے خوف اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم اب ایک طرح کی پوری صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس منافع بخش صنعت کو مسلمانوں کے مخالف ادارے اور افراد فراخدلی سے مالی امداد دیتے ہیں۔ یہ ادارے اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے عموماً تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور لکھاریوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ان اداروں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010ء میں ایسے اداروں کی تعداد تقریباً پانچ تھی جو میں تیزی سے بڑھتے ہوئے 114 کے قریب پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں کے حوالے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ طرزِ عمل اسلام مخالف رویہ پر مبنی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے حالانکہ تمام حکومتیں بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی پابند ہے۔ تاہم نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اسلاموفوبیا کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔ اس سے مراد اسلام، مسلمانوں یا اسلامی تہذیب سے نفرت یا خوف کرنا ہے۔ جس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اسلام ایک متعصب دین ہے جس کا رویہ دیگر مذاہب کے ساتھ متشددانہ ہے نیز یہ کہ مسلمان ہر اس چیز کو ردّ کر دیتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہو۔ اسلاموفوبیا کا شکار شخص اس واہمہ کا اسیر ہو جاتا ہے کہ تمام مسلمان یا بیشتر مسلمان مذہبی جنونی ہیں، وہ غیر مسلموں کے تئیں جارحانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اسلاموفوبیا میں ملوث افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام رواداری، مساوات اور مغربی نظریہ جمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ اسلاموفوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا اصطلاح کا استعمال 1976ء کے آغاز سے ہوا لیکن 80 ء اور 90 ء کی دہائیوں میں اس کا استعمال بہت کم رہا۔ یہ اصطلاح 1990ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ 11 ستمبر 2011 ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر تحقیق طلب دہشت گردانہ ڈرامائی حادثہ کے بعد اس لفظ کا استعمال کثرت سے مسلمانوں کے خلاف کیا گیا۔ ویسے اسلاموفوبیا کا ایک منفی نظریہ اسلام کے خلاف عداوت و دشمنی رسول اﷲ کے دور سے ہی چلی آرہی ہے اور بیسوی صدی کے آخری دہائی میں اپنے شباب تک گئی۔عیسائی اور یہودی دنیا اسلام کو ایک خوف زدہ اور نا قابل قبول مذہب تصور کرتے ہیں۔ اسی لئے آئے دن نئے نئے حربوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل و رسواء کرنے کے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں۔اگر ہم دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے دنیا کو اسلام کی حقیقت سے دور کیا جارہا ہے۔ اسلاموفوبیا کے تحت تہذیبی و ثقافتی، مذہبی و سیاسی اور علمی و ادبی ہر اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے، اسی لیے تمام سیاسی حالات، بحران، تشدد و تعصب، انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت گری وغیرہ اسلاموفوبیا کی عکاسی کرتے آرہے ہیں۔ کئی ممالک میں امت مسلمہ کے افراد کو بے خوف و خطر حملوں کے ذریعے تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ رحمت اللعالمین، خاتم النبیین ؐ کی توہین ۔ نیوزی لینڈ میں جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوکر نمازیوں پر اندھا دھند گولیاں چلا کر 51 نمازیوں کو شہید کرنا، جرمنی میں نقاب پہننے کے سبب عدالت کے اندر قتل کرنا، اسی طرح گوانتا ناموبے اور ابوغریب جیلوں میں قرآن پاک کے ساتھ نامناسب سلوک, ناروے اور سویڈن میں ایک مجمع میں قرآن پاک کو جلانے کا دلسوز واقعہ, حال ہی میں کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں دہشتگردی، نفرت اور مذہبی تعصب پر مبنی جو خوفناک واقعہ رونما ہوا۔ یہ خوفناک حادثہ درحقیقت حادثہ نہیں بلکہ ایک 20 سالہ کینیڈین نوجوان کے اسلاموفوبیا، مسلمانوں سے حد درجہ نفرت کا شاخسانہ تھا۔

 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 98017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.