معاشرے میں عزت ہمیشہ اسی انسان کی ہوتی ہے جو عام حالات
ہو ں یا اقتدار خاندانی پس منظر اور علاقائی پہچان کو یاد رکھتا ہے ،اقتدار
لفظ ہی ایسا ہے کہ جو اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ پاتا وہ زمینی خدا بن جاتا
ہے جو سمجھ جاتا ہے وہ اس کی مخلوق کا خادم بن کر اس کی خدمت کو ہی اپنا
مشن بنا لیتا ہے اورامر ہوجاتا ہے ، تنظیمی مصروفیات کے پیش نظر چند روز
شہر اقتدار میں پرانے تحریکی ساتھی سید احمد ولید بخاری کے ہمراہ گزارنے کا
موقع ملا وہ آج کل ساؤتھ افریقہ میں مقیم ہیں اور ایک عظیم مشن کے لیے
پاکستان میں آئے ہوئے ہیں محکمہ اطلاعات کے افسران ودیگر امورکے کام کاج کے
ساتھ صحافتی شخصیات سے ملاقات بھی شیڈول کا حصہ تھی ۔زیروپوائنٹ پر واقع اے
پی پی کے دفتر میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی نائب صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال
سے ملاقات کے لیے پہنچے توانہوں نے پر خلوص انداز میں مین گیٹ پر خوش
آمدیدکہا وہ اے پی پی میں سرائیکی شعبہ کی ہیڈ ہیں ان کے دفتر میں سینئر
صحافی ناصر عباس ودیگر بھی موجود تھے، علاقائی صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد
کے سلسلہ میں ڈاکٹر سعدیہ کمال سے رابطہ تو پہلے سے تھا لیکن ان سے ملاقات
پہلی بار ہورہی تھی ڈاکٹر سعدیہ کمال کا آبائی شہر بہاول پور کی تحصیل احمد
پور شرقیہ ہے ان کی شادی ڈیرہ غازی خان کی تحصیل اور صوفی بزرگ خواجہ سلمان
تونسوی کے شہر تونسہ شریف میں ہوئی ہے ان کے سسرارشاد تونسوی (مرحوم)
سرائیکی شاعر ،ادیب اور دانشور تھے،ڈاکٹر سعدیہ کمال نے صوفی بزرگ خواجہ
غلام فرید کی زندگی پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ، وہ ماسٹر کرنے کے بعد کچھ
عرصہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں بطور لیکچرار بھی خدمات سر انجام
دیتی رہی ہیں۔مظلوم طبقہ کی آواز بلند کرنے اور صحافتی اداروں میں صحافیوں
کے ساتھ ہو نے والی ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کے لیے وہ الیکشن کے ذریعے
مسلسل دوسری بار نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی نائب صدر منتخب ہوئیں دونوں
باربھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے شہر اقتدار کے نامورصحافیوں کو
پریشان کردیا ان کی گفتگو میں اپنے علاقہ کی ترقی وخوشحالی کا درد تھا ہر
بات پر اپنے لوگوں کی باتیں اور ان کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ میں نے پہلے
کسی بھی صحافتی شخصیت میں نہیں دیکھا تھا ،علاقائی صحافیوں کا نمائندہ ہونے
کی وجہ سے ملک بھر کے تمام بڑے پریس کلبز کے لیڈران سے ملاقاتیں ہوتی رہتی
ہیں لیکن کسی کے منہ سے آج تک آپنے آبائی علاقہ کی بات تک نہیں سنی لیکن
یہاں پر صورت حال مختلف تھی ان کی ہربات میں اپنے وسیب کے لوگو ں کے لیے
اپنا پن تھا، ان سے پہلی ملاقات میں مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ نیشنل
پریس کلب اسلام آباد میں ممبران پریس کلب کی تعداد تو سینکڑوں میں ہے لیکن
لیڈر صرف یہ عورت ہی ہے، جب ریجنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان نے علاقائی
صحافیوں کے حقوق کے حصول کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈپیش کرکے جدوجہد کا آغازکیا
تو کسی بھی صحافتی لیڈر نے علاقائی صحافیوں کے موقف کی حمایت نہ کی بلکہ
کچھ تومخالفت کرنے سے بھی باز نہیں آئے اس وقت صرف ڈاکٹر سعدیہ کمال تھیں
جنہوں نے حمایت کی تھی،ان کی محبت کہ دوسرے روز ہماری دعوت پروہ اپنے صحافی
ساتھیوں جنید ملک ، طیب بلوچ اور نادر بلوچ کے ساتھ پنجاب ہاؤ س پہنچی جہاں
پر علاقائی صحافیوں کے مسائل اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی پر سیر حاصل
گفتگو ہوئی۔آج تک جنوبی پنجاب کے کسی سیاستدان ، قوم پرست، صوبہ محاز، اور
صحافیوں کے لیڈران میں ایسا جذبہ نظر نہیں آیا تاریخ گواہ ہے کامیابی ہمیشہ
ان ہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جو کوشش کرتے ہیں اور اقتدار کی جس بھی
بلندی پر پہنچ جائیں اپنے وسیب کو یاد رکھتے ہیں ڈاکٹر سعدیہ کمال نے شعبہ
صحافت کی سیاست میں جو کمال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اپنے لوگوں سے اپنی
مادری زبان میں گفتگو اور اسلام آباد جیسے شہر میں نیشنل پریس کلب جیسے
ادارہ کی عہدے دار ہو کر بھی اپنا ریت رواج اور لباس تبدیل نہیں کیا یہ ان
کی اپنے علاقہ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے جن صحافیوں کی اسلام آباد میں
کوئی آواز نہیں ہے ان کی آوازیہ خاتون ہے وہ اپنے علاقہ کے لوگو ں کے حقوق
کی جدوجہد اس قدر جذبے سے کرتی ہیں اس جذبے کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے
اصل میں وہ حقیقی طور پر صحافیوں اور سرائیکی وسیب کی سب سے بڑی لیڈر ہیں۔
|