سفید ہاتھی کے ریوڑ

یہ بھگوان گنیشا سفید ہاتھی عوام کا بھرکس نکالنے کے لیے ہر ہر جگہ پر موجود ہیں۔ان تمام کو دی جانے والی مراعات کا دس فیصد بھی عوامی بھلائی پر خرچ کر دیا جائے تو یقین جانے پاکستانی عوام کے حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ ان افسران بالا کی کارکردگی کا تو یہ حال ہے کہ رعایا کو سہولیات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کے لیے ان کے تعفن ذدہ دماغ کو ائر کنڈیشنڈ دفتر اور لگژری گاڑیوں میں رکھنا پڑتا ہے مجبوراً عام عوام میں آنا پڑے تو اپنے نااہل خوشامدیوں کے ٹولے کے حصار میں مقید رہتے ہیں پروٹوکول کے نام پر ضرورت مند کو پاس پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔

ہاتھی ایک دیو قامت ممالیہ جانور ہے اور جسامت کے لحاظ سے دیگر جانوروں سے بڑا ہے۔ ہاتھی کی تین اقسام پائی جاتی ہیں افریقی بش ہاتھی،افریقی ہاتھی اور ایشائی ہاتھی۔ ہاتھی کی اوسط عمر ستر سال ہوتی ہے، مگر کچھ ہاتھی طویل عمر بھی پاتے ہیں۔ ہاتھی کی کھال ایک انچ موٹی ہوتی ہے۔

ایک ہاتھی والوں نے مکہ پر حملے کا اردہ کیاقریش اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے لہذا حضرت عبدالمطلب نے دعا کی۔قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگی کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرمااے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا۔اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما..''

دوسرے روز ابرہہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھا مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ہاتھی ''محمود'' مکہ کی طرف چلنے کی بجائے یکایک وہیں بیٹھ گیا اور بے پناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ہوگئے ہر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ہوئے تھے.. ابرہہ اور اس کے لشکر کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردئے۔
تھوڑی ہی دیر میں ابرہہ اپنے 60 ہزار کے لشکر اور 13 ہاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہوہر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں۔

ہندو مت میں گنیش غیر معمولی قابل ذکر دیوتا ہیں۔ یہ عقل دینے والے دیوتا ہیں اور بہت مبارک مانے جاتے ہیں۔شادی وغیرہ ہر ایک مبارک کام میں رکاوٹیں پیش نہ آنے کے لیے گنیش کی پوجا کی جاتی ہے۔ گوسوامی تلسی داس نے انھیں عقل کا خزانہ اور مبارک کام کرنے والا کہا ہے۔ ان کو شیو دیوتا کا بیٹا مانا جاتا ہے۔ لغت کے لحاظ سے ان کے کئی نام ہیں۔ جیسے بھگنیشور، پرشوپانی گجانن ایک ونت، لمبودر وغیرہ۔ دیوتاؤں میں سرفہرست ہونے کے اعتبار سے ان کو وِنایَک کہتے ہیں۔ گنیش کی جو شکل بتائی جاتی ہے اس میں ان کا چہرہ ہاتھی کا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کی قدیم بادشاہتیں، جن میں برما (میانمار)، سیام (تھائی لینڈ)، کمبوڈیا اور لاؤس شامل ہیں، سفید ہاتھی کی ملکیت کو قابلِ فخر تصور کرتیں اور انھیں صرف شاہی محل کے لیے مخصوص کر دیا جاتا۔ عوام اسے خوشحالی اور انصاف کی نشانی سمجھتے اور مقدس خیال کرتے۔
اب ایسے جانور سے کچھ محنت مزدوری تو کروائی نہیں جا سکتی بلکہ الٹا اس کی دیکھ بھال پر بہت خرچ آتا۔ بادشاہ کبھی ایسے ہاتھی تحفے میں امرا کو عطا کرتا تو وہ اس عزت افزائی سے معذرت بھی نہیں کر سکتے اور اسے پالنے کے متحمل بھی نہ ہوتے۔ اس طرح جسمانی رنگت اور معاشی و معاشرتی پس منظر مل کر ’سفید ہاتھی‘ محاورے کا موجب بنے۔

پاکستانی عوام بھی کچھ ایسی صورتحال کا شکارہے جسے مفاد عامہ کی خدمات کے نام پر اشرافیہ نامی سفید ہاتھی بطور تحفے بخش دئیے گئے ہیں۔صرف موجودہ حالات پر ہی بات کر لی جائے تو غریب کے لیے دردِ دل رکھنے والی ہر کام میرٹ پر کرنے کی دعودار تبدیلی سرکار کی اشرفیہ نے لوٹ مار کا وہ بازار گرما رکھا ہے کہ جس کے بھٹرکتے شعلوں پر میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر سیخ کباب بنا کربھونے جا رہے ہیں کھائے جا رہے ہیں اور پیٹ کے کنویں ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔

ضمیر فروشوں کی ایک منڈی آباد ہے جو زمین پر بھگوان بنے بیٹھے ہیں سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے اکثر بے مراد اور ان گنیشوں کے تلوے چاٹنے والے لوٹ مار کے بھوج کے حصے دار بن جاتے ہیں۔مفاد عامہ کی بھلائی کے دعودار دراصل خود عام آدمی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں. ہندومت کا یہ ڈھونڈی راج بدقسمتی سے آج بھی عوام پر مسلط ہے۔ بھگنیشور، پرشوپانی گجانن اونت، لمبودر کی بجائے وزراء،امراء،سیکرٹری،افسرانِ بالا کی لقب لیے یہ بھگوان گنیشا سفید ہاتھی عوام کا بھرکس نکالنے کے لیے ہر ہر جگہ پر موجود ہیں۔ان تمام کو دی جانے والی مراعات کا دس فیصد بھی عوامی بھلائی پر خرچ کر دیا جائے تو یقین جانے پاکستانی عوام کے حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ ان افسران بالا کی کارکردگی کا تو یہ حال ہے کہ رعایا کو سہولیات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کے لیے ان کے تعفن ذدہ دماغ کو ائر کنڈیشنڈ دفتر اور لگژری گاڑیوں میں رکھنا پڑتا ہے مجبوراً عام عوام میں آنا پڑے تو اپنے نااہل خوشامدیوں کے ٹولے کے حصار میں مقید رہتے ہیں پروٹوکول کے نام پر ضرورت مند کو پاس پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔

ریاستِ مدینہ کی پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والی تبدیلی سرکار کاش حضرت عمر کی اس روش کو ہی اختیار کر لے کہ اپنی تنخواہ ایک مزدور کے برابر کرنے کا ظرف ہی رکھ لے تو معاشرہ خود بخود سدھرتا جائے گا۔مگر سدھانے آتا کون ہے آسائشوں کے اس سہولت بازار میں یہ دیو ہیکل ایک سے بڑھ کر ایک آتے ہیں کرپشن اور تباہی کی نت نئی مثالیں اور روایتیں قائم کر کے جاتے ہیں لا علمی،کم علمی سہولتوں کے فقدان،حق تلفیوں کے شکار،مہنگائی کی چکی میں پیسے عوام کے مداوے کے لیے تو اس معاشرے میں کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ خود عوام انہی دیوتاؤں کو اپنا نجات و ہندہ سمجھتے ہیں جو انہی کے خون کا ایندھن بنا کر اپنی عیاشی میں مصروف ہیں۔ البتہ ابابیلوں کے لشکر سے ان ہاتھیوں اور ہاتھی والوں کا حشر کرنے والا سچا رب موجود ہے جو ڈھیل تو دیتا ہے مگر چھوٹ نہیں۔

 

Saima Mubarik
About the Author: Saima Mubarik Read More Articles by Saima Mubarik: 10 Articles with 11245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.