منشیات کے خاتمہ میں ہمارا کردار

منشیات کی مختلف اقسام کا استعمال ہمارے لیے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے،1980کی دہائی میں پوست کی پیداوار کے کاروبار میں بہت سے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا اور راتوں رات مال دار بن گئے ،اس کاروبار سے منسلک افراد نے وطن عزیز پاکستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو منشیات کا عادی بنایا، اُن سے جوانی چھین لی ، معاشرے کے ناسوروں نے نوجوانوں کی زندگیاں اورخاندان برباد کر کے رکھ دیے افسوس جومنشیات کے عادی ہو گئے اُن میں سے بڑی تعدادکو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ منشیات نہ صرف پھیپھڑوں ،گردوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ ایڈز اور HIVکے مرض کا بھی باعث بنتی ہے جو کہ لاعلاج ہے منشیات کا استعمال کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کرنے کے ساتھ اپنے پورے گھرانے کی زندگی کو بھی اجیرن بنا دیتے ہیں،گزشتہ سال جنوری2020سے اب تک کرونا وبا کی پہلی دوسری اور تیسری لہر نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہیں منشیات کا استعمال بھی بڑھا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ چھ لاکھ افراد منشیات استعمال شروع کر رہے ہیں ،دنیا بھر کے ممالک میں منشیات کے استعما ل پر پابندی کے قوانین بظاہر موجود ہیں،لیکن ان پر عمل درآمد میں ابھی بھی کئی مشکلات سامنے آرہی ہیں ،منشیات کے استعمال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی، انسان نے اسکا استعمال کب شروع کیا اور سب سے پہلے کس نے منشیات (شراب، افیون، چرس،بھنگ ،ہیروئن وغیرہ) کا استعمال کیا اس بارے صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو منع کیا ہے ، دین ِ اسلام میں اﷲ تعالیٰ نے شراب کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے، حضرت محمد ﷺ نے معاشرے میں نشہ آور چیزوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو روکنے کے لئے اس کااستعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ،دین اسلام کی تعلیمات میں معاشرے سے منشیات کاقلع قمع کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے، اسلام نے اس کو ہر لحاظ سے ممنوع قرار دیا،اسکو’’ اُم الخبائث ‘‘ کا نام دیا اسلام نے اسے تمام جرائم کی ماں کا نام دے کر اس کے جملہ پوشیدہ عیوب و نقائص بیان کردیے، اسلام نے ہر اس چیز کو جو کسی بھی صورت میں نشہ کا سبب بنتی ہواس پر حرام کی مہر لگا کر اس کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا ،اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ’’اے ایمان والو!شراب اور جواور بت اور پانسے(یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔سوان سے بچتے رہنا ،تاکہ نجات پاؤ۔‘‘ اﷲ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہاری آپس میں دشمنی اورر نجش ڈلوادے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو(ان کاموں سے)باز رہناچاہیے۔‘‘(المائدہ ،آیت:91)۔حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایاجو کوئی شراب پیے، اس کو درے مارواور اگر وہ چوتھی بار اس کا ارتکاب کرے تو اسے قتل کرو‘‘۔حضرت جابر ؓ آگے فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بعد میں آپ ﷺکے سامنے لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی لی تھی تو آپ ﷺ نے اس کو مارا، مگر قتل نہیں کیا۔(ترمذی،ابوداؤد)۔حضرت ابن عباس ؓروایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز جو عقل میں بگاڑ پیدا کردے شراب کے زمرہ میں آتی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس نے نشہ آور چیز کا استعمال کیا اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہوگئیں۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا اورآپ ﷺ سے ایک شراب کے بارے میں پوچھا جو ایک اناج (جسے مضر کہتے تھے)نکالا جاتا تھااور جسے وہ اپنے ملک میں پیتے تھے۔آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا اس میں نشہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا،ہاں۔آپ ﷺ نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔بے شک اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نشہ آور چیزپیے گا تو ان کو(تینتہ الخبل) پلایا جائے گا۔انہوں نے پوچھا اے اﷲ کے رسول! یہ’’تینتہ الخبل‘‘ کیا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا جہنمیوں کا پسینہ یا پیپ۔(مسلم شریف) حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے ہر نشہ آور اور مفتر(اعضاء کو بے حس کرنے والا)چیز سے منع فرمایا۔(ابو داؤد)۔ سانچ کے قارئین کرام !عالمی دنیا نے ایک طرف شراب پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور دوسری طرف اسے مختلف ناموں سے منسوب کر کے اس کی تجارت کا بازار گرم کر رکھا ہے، پوری دنیا میں دو ہی شہر ایسے ہیں جہاں منشیات کا گزر تک نہیں ان میں ایک مکہ مکرمہ اور دوسرا مدینہ منورہ ہیں یہ دونوں مقدس ترین شہراسلامی قوانین کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں،دنیا میں اس وقت قریباََ 57 اسلامی ممالک ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ ممالک منشیات کے مکمل خاتمے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے ، ہیروئن کی پیداوار میں گزشتہ تین دہائیوں سے اسلامی ملک افغانستان کا نام سرفہرست رہا ہے ،وطن عزیز پاکستان میں منشیات کے استعمال کارجحان روس افغانستان جنگ کے بعد بڑھا ، گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں منشیات کے عادی افراد میں سرنج سے نشہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ افراد نشے کے لیے ایک دوسرے کی سرنجیں استعمال کرتے ہیں، جس سے وہ ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان دنیا میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کا ایک اہم روٹ بھی ہے، آئے روز تعلیمی اداروں خاص طور پر بڑے شہروں میں قائم تعلیمی اداروں میں منشیات (ہیروئن ، چرس ، افیون وغیرہ) خاص طور پر آئس کا نشہ فروغ پا گیا ،سانچ کے قارئین کرام ! ’’کرسٹل میتھ ‘‘یا ’’آئس ‘‘ کیا ہے؟ ’’کرسٹل میتھ‘‘ نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ کرسٹل‘‘ یا ’’آئس‘‘ نامی یہ نشہ ’’میتھ ایمفٹامین‘‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق’’آئس‘‘ کے مسلسل استعمال سے انسان میں مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور توانائی کے مشروب کی طرح جسم میں طاقت محسوس ہوتی ہے۔ ’’آئس‘‘ پینے کے بعد انسان کے اندر توانائی دگنی ہوجاتی ہے ،اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران انہیں بالکل نیند نہیں آتی۔ ’’آئس‘‘ تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ انتہائی تیزی سے کام کرتا ہے اور اس میں توانائی آجاتی ہے۔ تاہم جب نشہ اترتا ہے تو انسان انتہائی تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتا ہے۔ یہ نشہ بالکل کوکین کی طرح کام کرتا ہے لیکن یہ کوکین سے سستا اور اس سے زیادہ خطرناک ہے ، سانچ کے قارئین کرام !ایک گرام ’’آئس‘‘ 1500 روپے سے تین ہزار روپے میں بھی فروخت ہورہی ہے۔ ’’آئس‘‘ کا نشہ کرنے والے اکثر افراد شدید ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں،۔ امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں ’’آئس‘‘ کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی بتائی جاتی ہے، تاہم اس کے برعکس ’’آئس ہیروئن‘‘ کی لت انسان کو ذہنی اور جسمانی معذوری کر رہی ہے۔اس کا عادی انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔گھر کے کسی فرد کا نشے میں مبتلا ہونے کا اثر پورے گھر پر پڑتا ہے خاص طور پر وہ نوجوان جنھیں والدین اعلی تعلیم کے لئے کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید شہری بننے کے ساتھ والدین کا سہارا بنیں لیکن افسوس کہ چند نادان ان میں سے غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں ، ماہرین کے مطابق منشیات کے مکروہ کاروبار میں ملوث موت کے سوداگروں نے خفیہ طور پر کروڑوں روپے کی لاگت سے جدید لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں وہ دن رات نت نئے اقسام کے نشے تیار کروانے میں مصروف رہتے ہیں، "آئس’’ نامی نشے کی تیاری بھی ایسی ہی کسی موت کی لیبارٹری کی کارستانی ہے جس نے اس دوا میں مزید خطرناک کیمیکلز کی آمیزش سے اسے انتہائی خطرناک ، زہریلا لیکن بظاہر بے ضرر دکھنے والا نشہ بنادیا۔کہ دنیا بھر میں "آئس " نشے کے عادی افراد کی جانب سے ہی "ریپ اور زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں جو اس نشے کا خطرناک ترین پہلو ہے،،وطن عزیز پاکستان میں اینٹی ناکوٹکس فورس ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی وجہ سے نشہ آور اشیاء کے خلاف بھر پور کاروائیاں کرتے ہوئے بڑے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود غیر سر کاری اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد مختلف قسم کے نشوں کا شکار ہیں جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ساٹھ لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں وطن عزیز میں منشیات جیسی لعنت کے خاتمے اور اس کے خلاف آگہی دینے کے لئے بے شمار این جی اوز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ ٹریٹمنٹ سنٹر کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے جہاں مختلف نشوں کے شکار ان افراد کی بحالی اور علاج ممکن ہو سکے ، اوکاڑہ میں بھی بعض جگہوں پرایسی حالت دیکھنے کو ملتی ہے اوور ہیڈ برج، ریلوے لائن ،قبرستانوں کے آس پاس منشیات کے عادی افراد سرنجوں اور پاؤڈر کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں، راقم الحروف (محمد مظہررشید چودھری ) نے دو سال قبل وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے اوکاڑہ کے دورہ کے موقع پر خصوصی طور منشیات ے عادی افراد کے لئے ڈویژن بھر کے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں نشے کے شکار افراد کے علاج کے لئے خصوصی وارڈز کے قیام کی درخواست کی جس پر انھوں سابقہ کمشنر ساہیوال ڈویژن ندیم الرحمان کو ہدایات دیں کہ راقم الحروف سے رابطہ رکھ کر قابل عمل اقدامات کئے جائیں ، بعد ازاں راقم الحروف نے کمشنر کو بارہا یاد دہانی کروائی افسوس کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ایسے وارڈ بنانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی حکومت کی سطح پر ایسے وارڈ بنوانے کاواحد مقصد غریبوں کو سستے علاج کی سہولت فراہم کرنا تھا ،جبکہ این جی اوز کے تحت تو پنجاب میں کئی ایک ٹریٹمنٹ سنٹر کام کر رہے لیکن وہاں علاج انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے غریب نشے کا شکار شخص علاج سے محروم رہتا ہے جبکہ ایسے ادارے بھاری فنڈ بھی حاصل کر رہے ہیں ، گزشتہ سال سینٹ کو بتایا گیا کہ سب سے زیادہ عام نشہ چرس کا ہے جس کا شکار آبادی کا 3.6 فیصد حصہ ہے۔ نشہ استعمال کرنے والے افراد کی اکثریت 25 سے 39 سال کی عمر میں ہے اور سب سے زیادہ چرس کا استعمال 30 سے 34 سال کی عمر کے افراد میں دیکھا گیا ہے ،حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چرس کے نشے کے شکار افراد کی تعداد 40 لاکھ ہے جبکہ آٹھ لاکھ 60 ہزار افراد ہیروئن کا شکار ہیں۔ ٹیکے کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کی تعداد چار لاکھ 30 ہزار جبکہ افیون کے نشے کے شکار افراد کی تعداد تین لاکھ 20 ہزار ہے ،1999میں اوکاڑہ شہر میں منشیات کے خلاف آگاہی دینے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی جس کا نام موومنٹ اگینسٹ ڈرگ ابیوز "ماڈا"رکھا گیا گزشتہ کئی برسوں سے منشیات کے خلاف آگاہی لیکچرز ،واک،سیمینار کا اہتمام کرنا اس تنظیم کا خاصہ ہے، اس تنظیم کی جنرل سیکرٹری مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ ہیں جوکہ سابق سینئر نائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ہیں نے ضلع بھر منشیات کے خلاف بھر پور آگاہی مہم جاری رکھی ہوئی ہے،سانچ کے قارئین کرام ! ہر سال 26جون کویو این او کی جانب سے انسداد منشیات کا عالمی دن منایاجاتاہے، اقوام متحدہ نے سال 2021 کاتھیم “Share Facts On Drugs, Save Lives” رکھا ہے ،راقم الحروف نے ضلع اور تحصیل کی سطح پر پولیس کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے حوالہ سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر فیصل شہزاد سے گفتگو کی تو انھوں نے بتایا کہ ضلع بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف بھر پور کاروائیاں کی جارہی ہیں ماہ جنوری 2021سے تادم تحریرمنشیات فروشوں کے خلاف 630مقدمات درج کیے گئے ،676ملزمان کو گرفتار کیا گیا ، 403کلو گرام چرس ،افیون10.184کلو گرام ،ہیروئن 2.17کلوگرام، شراب 12049بوتلیں برآمد کی گئی ہیں ، ڈی پی او فیصل شہزاد نے بتایا کہ دس پندرہ گرام کی بجائے بڑے منشیات فروشوں کے خلاف کامیاب کاروائیاں کی گئی ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات مل کر اس زہر کے خاتمے کی کوشش کریں ٭


 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 88 Articles with 71730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.