گزشتہ دو ماہ سے روات سے کلرسیداں روڈ پر ڈکیتیوں
کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ہر ہفتے کے بعد کوئی نہ کوئی
ڈکیتی کی بڑی وارادت واقع ہو جاتی ہے جس وجہ سے اس روڈ کے تاجر بلکل غیر
محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں روات کلرسیداں روڈ پر3موٹر سائیکل سوار ڈاکو
پوٹھوار ٹریڈر کے مالک سے محمد عامر سے 10لاکھ روپے چھین کر فرار ہو گئے
ہیں اس واردات کے دو دن بعد مانکیالہ بازار سے 2موٹر سائیکل سوار ڈاکو
عمران فارمیسی سے نقدی چھین کر فرار ہو گئے ہیں اسی طرح بیول بازار سے
2ڈاکو شان بیکری کے مالک سے رقم چھین کر فرار ہو گئے ہیں ایک ماہ قبل صبح
سویرے 2موٹر سائیکل سوار ڈاکو ہی ریت بجری کا کام کرنے والے تاجر محمد بشیر
سے 50ہزار روپے اور موبائل چھین کر با آسانی فرار ہو گئے ہیں یہاں پر ایک
سال قبل رونما ہونے والی وارداتوں کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے روات سے
کلرسیداں روڈ پر ماں نی بنی میں ایک نوجوان تاجر کو سر شام لوٹکر اس کو بے
دردی کے ساتھ قتل بھی کر دیا گیا تھا ایک سال قبل ہی ریڈکو مل کے قریب دن
دیہاڑے دودھ فروخت کر کے واپس آنے والے دو افراد کو دیدہ دلیری کے ساتھ
اسلحہ کی نوک پر لوٹ لیا گیا تھا انہی دنوں میں دن دیہاڑے شاہ باغ میں عاصم
کریانہ سٹور کے مالک کو بھرے بازار کے سامنے تین ڈاکو نہایت ہی آسانی کے
ساتھ ان سے پانچ لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے تھے دکاندار روٹین کے مطابق
اپنے کام میں مصروف تھا کے تین ڈاکو بمعہ اسلحہ اندر داخل ہوئے سب سے پہلے
انہوں نے گارڈ کو قابو کیا اس کے بعد باقی سٹاف اور دکان کے مالک کو قابو
کیا اور ان سے سب کچھ چھیننے کے بعد بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے یہاں
ایک خاص بات بتاتا چلوں کہ عاصم کریانہ سٹور پر یہ چوتھی واردات تھی اس
دکان پر دو دفعہ چوری اور دو دفعہ ڈکیتی کی وارادت ہو چکی ہے اور حیرت والی
بات یہ ہے کہ ہماری پولیس ابھی تک ان چاروں وارداتوں کا سراغ لگانے میں بری
طرح ناکام ہے واردات کے بعد پولیس آتی ہے اور اپنے روایتی طریقے سے طفل
تسلیاں دے کر واپس چلی جاتی ہے اور تھانے پہنچ کر بھول جاتی ہے کہ ہم کہاں
گئے تھے اس طرح دن دیہاڑے اور بھرے بازاروں میں تاجروں کو کامیابی کے ساتھ
لوٹنے والے گروہ کی وارداتوں کا طریقہ کار سن کے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم
کسی علاقہ غیر میں بیٹھے ہوئے ہیں اس طرح کی کامیاب وارداتیں تھانہ روات ،کلرسیداں
اور پولیس افسران کیلیئے لمحہ فکریہ ہیں اب تک کے حالات و واقعات سے تو یہی
اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ موٹر سائیکل سوار ڈکیت گروہ تھانہ روات و کلرسیداں
کی پولیس کی طاقت سے زیادہ طاقتور ہے جس وجہ سے پولیس ابھی تک ان کو پکڑنے
میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے پولیس کے اس نا مناسب رویے کی وجہ سے
تاجر اپنی دکانوں کو ڈاکوؤں کیلیئے بہترین پناہ گاہیں سمجھنے لگ گئے ہیں ان
کے زہنوں میں یہ خیال پیدا ہو رہے ہیں کہ یار یہ دکانیں ہماری تو ہیں ہی
نہیں بلکہ یہ دکانیں تو ان ڈاکوؤں کی ملکیت بن چکی ہیں جو بلکل تسلی سے اور
بلا خوف و خطر اندر داخل ہوتے ہیں اور دن بھر کی کمائی با آسانی چھین کر
فرار ہو جاتے ہیں ان کوپکڑنے والا کوئی بھی موجود نہیں ہے جس کی واضح مثال
موجود ہے کہ عاصم کریانہ سٹور پر چار واداتیں ہونے کے باوجود ابھی تک ایک
وارادت کے ملزمان بھی ٹریس نہیں ہو سکے ہیں جو دکاندار چند سالوں میں چار
دفعہ لٹ چکا ہے اس کی دکان کے مالک تو وہی ڈاکو ٹھہرے نا جو کوئی انویسٹمنٹ
کرنے کے بغیر دکان کی کمائی سے مستفید ہو رہے ہیں آخر ہماری پولیس کر کیا
رہی ہے کسی پر کوئی ایک معمولی سی درخواست ہو جائے تو پولیس دونوں پارٹیوں
کا کچومر نکال دیتی ہے مدعی اور ملزمان پارٹی کے پورے خاندان کو تھانے میں
رلاتی ہے اور اسی پولیس سے محض چند ڈاکو پکڑے نہیں جا رہے ہیں اور اب تو
نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کے جب کوئی گاہک کسی دکان پر جاتا ہے تو دکاندار
پہلے اس کو نیچے سے اوپر تک شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ کوئی
ڈاکو تو نہیں ہے وارداتوں کا یہ سلسلہ کم نہیں بلکہ مزید بڑھتا جا رہا ہے
ایک سال قبل روات میں ڈکیتی کی ایک واردات رونما ہو چکی ہے جس میں ناکام
ڈکیتی پر ڈاکوؤں نے دکاندار کو گولیاں مار دی تھیں اور ایکروز موت کی کشمکش
میں مبتلا رہنے کے بعد وہ دکاندار مر گیا تھا اس واردات کے ملزمان بھی با
حفاظت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ابھی عوام علاقہ ان وارداتوں کے
ملزمان پکڑنے کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ روات کلرسیداں روڈ پر ساگری کے
قریب بیرون ملک سے واپس آنے والی فیملی کو لوٹ لیا گیا تھا اور ان پر اندھا
دھند فائرنگ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک مرد اور ایک عورت شدید زخمی
حالت میں ہسپتال منتقل کر دیئے گئے تھے وہ لوگ کیا سوچ رہے ہوں گئے کہ ہم
کس ملک کس علاقہ میں بھول کر آ گئے ہیں جہاں ہماری جمع پونچھی تو گئی ہی
گئی ہے وہاں ہماری جانیں بھی ضائع ہونے کا سخت اندیشہ موجود تھا اس روڈ کو
اب اگر موت کی روڈ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا روات سے کلرسیداں روڈ پر
ایک انسان کی جان کی قیمت محض ایک پھٹے شاپر کے برابر رہ گئی ہے تھانہ روات
اور کلرسیداں کے معاملات ڈکیت گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے ہیں آئے
روز ڈکیتیاں مزاحمت پر قتل و زخمی ہونا اب ایک معمول بن چکا ہے حکومتی
نمائندے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا
کر رہے ہیں خاص کر جو واردات پولیس چوکی چوکپندوڑی کی حدود میں واقع ہو اس
کے ٹریس ہونے کا تصور بھی نا ممکن ہے نہ جانے اس چوکی کو کس کی نظر لگ گئی
ہے یہاں پر کسی اچھے افسر یا اہلکار کی تعیناتی خام خیالی کی صورتحال
اختیار کر چکی ہے یہ چوکی دارداتیوں کیلیئے ایک بہترین حفاظت گاہ بن چکی ہے
اس پولیس چوکی کی حدود میں پچھلے ایک لمبے عرصے سے بے شمار ایسی وارداتیں
واقع ہو چکی ہیں جن کے مدعی دھکے کھا کھا کر مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ
چکے ہیں اس چوکی کو اگر دکان کہا جائے تو بہت بہتر سمجھا جائے گا تھانہ
روات و کلرسیداں کے سٹاف کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا یہ ڈکیت گروہ عوام کے
ساتھ ساتھ پولیس کیلیئے بھی سر درد بنتا جا رہا ہے پولیس کے اعلی حکام کو
بھی اس صورتھال کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا بصورت دیگر پولیس پر سے عوام کا
اعتماد بلکل اٹھ جائے گا اور ہر اس آنے والے نئے ایس ایچ او کا یہ اعلان کہ
اس کے علاقے میں جرائم پیشہ عناصر کیلیئے کوئی جگہ ہ نہیں ہے بلکل بے معنی
ہو کر رہ جائے گا
|