اچھائی کا بدل بہترین ہے

فاروق صاحب سعودی عرب میں ہمارے کولیگ تھے مانسہرہ سے تعلق تھا اور تبلیغی جماعت کے دیرینہ کارکن اور پکے مذہبی انسان ہیں سعودیہ آنے سے پہلے انہوں نے بہت سے کام کئے جن میں سے ایک فارسٹ افسر کے ساتھ مل کر جنگل سے چوری چیڑ کے درخت کاٹ کر انہیں فروخت کرنا بھی تھا اگرچہ بعد میں وہ ہمیشہ اپنے اس فعل پہ نادم رہے ۔

وہ اکثر اپنے اس دور کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے میری زندگی پہ اس واقعے نے بہت گہرا اثر ڈالا وہ کہتے ہیں " ایک بار ہم لوگ جنگل میں اسی کام کے ارادے سے جارہے تھے جب گھنے جنگل میں جہاں سے ہم نے درخت کاٹنے تھے پہنچے تو دیکھا ایک ریچھ کا پاؤں موٹے تنے کے نیچے پھنسا ہوا تھا ریچھ کافی پریشان اور تکلیف میں مبتلاء دکھائی دے رہا تھا ۔ ہم نے سوچا اسے اسی حالت میں چھوڑ کر اپنا کام کرکے چلتے بنیں مگر ہم میں سے ایک بزرگ نے یہ گوارہ نہ کیا انہوں نے اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں ہوگا ہمیں اس بیچارے جانور کی مدد کرنی چاہئیے"۔

" ہم نے ڈرتے ڈرتے بڑی مشکل سے اسے آزاد کرایا وہ کافی دیر ہم سے دور بیٹھا ممنونیت اور احسان مندی سے ہمیں دیکھتا رہا اس دوران ہم اپنے کام میں مگن ہو کر اسے فراموش کر بیٹھے ۔ دوپہر کو جب ہمیں بھوک لگی تو ہم نے دیکھا ہمارا چاولوں سے بھرا دیگچہ غائب ہے یقینأ یہ اسی ریچھ کا کام تھا۔ ہم نے باباجی کو خوب ستایا کہ آپ کی نیکی ہمارے گلے پڑ گئی اور اب ہمیں بھوکے پیٹ سارا دن گزارنا ہوگا"۔
وہ کہتے ہیں " ہم باباجی کو تنگ کرکے دوبارہ کام میں جت گئے کہ سہ پہر کے قریب ہم سب دنگ رہ گئے جب ہم نے دیکھا کہ وہی ریچھ ہماری طرف آرہا ہے جس طرح کپڑے میں ہمارا دیگچہ بندھا ہوا تھا اسی طرح کپڑا اپنے منہ میں دبائے اس نے آکر ہمارے پاس رکھ دیا اور خود پیچھے ہٹ گیا۔ ہم نے آگے بڑھ کر دیکھا تو سارا دیگچہ شہد کی چھلی سے بھرا ہوا تھاہم سب نے پیٹ بھر کر شہد کھایا پھر بھی بچ گیا , ریچھ کی یہ مہربانی دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے جانور کو بھی یہ عقل بخشی ہے کہ وہ بھی نیکی کا بدلہ دینے سے نہیں کترایا"۔

یہ واقعہ آج مجھے اس طرح یاد آگیا کہ میرے ایک قریبی صحافی دوست جو شاعر اور صاحب علم انسان ہیں اس وجہ سے میں انہیں اپنا استاد بھی کہتا ہوں کے والد صاحب کافی عرصے سے بیمار ہیں سفید پوش متوسط طبقے کے وسائل پہلے ہی محدود سے ہوتے ہیں اوپر سے بندہ ایماندار بھی ہوتو مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں آج کل وہ شدید مالی الجھنوں کا شکار ہیں سب جمع پونجی والد کے علاج پہ خرچ کرچکے اب مزید علاج جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے پھر بھی کسی سے مدد مانگنے سے کتراتے ہیں مجھے حیرت ہوئی کہ کیسے لوگ ایک دوسرے سے اس قدر غافل ہو گئے ہیں ۔

ان کے کئی زاتی وصحافتی دوست کروڑوں میں کھیلتے ہیں مگر کسی کو انہوں نے اپنی پریشانی اور تکلیف کا احساس نہیں ہونے دیا کسی سے مدد لینا بھی کوئی آسان کام نہیں، میری اپنے قارئین سے گزارش ہے اپنے ارد گرد ایسے سفید پوش لوگوں کا گہری نگاہ سے مشاہدہ کیا کریں اور اگر کوئی مجبور ہو تو چپکے سے اس کی عزت نفس مجروح کئے بغیر اللہ کے لئے اس کے لئے آسانیاں پیدا کردیا کریں اگر ایک جانور احسان کا بہترین بدل دینے سے گریز نہیں کرتا تو انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے وقت آنے پہ آپ کو اس کی اعلی ترین جزاء دےگا اور پھر اللہ کریم تو کسی کی زرا برابر نیکی بھی ضائع نہیں کرتا وہ خود کریم ہے تو کیسے اپنے بے بس بندوں کی مدد کرنے والوں کو فراموش کرسکتا ہے؟۔

اپنےاس کالم کے توسط سے سیالکوٹ کی ضلعی انتظامیہ کی توجہ ایک ہم مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں، کچھ عرصہ پہلے کروڑوں روپے کی لاگت سےسیالکوٹ سے وزیرآباد تک نالہ پلکھو کی صفائی اور اس کے پشتے اونچے اور چوڑے کئے گئے تھے بدقسمتی سے اب یہ قومی سرمائیہ آہستہ آہستہ ضائع ہونے کے قریب ہے بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ سے بندھ ٹوٹ کر کھیتوں اور پلکھو میں واپس گررہا ہے اگر فوری طور پہ اسے مضبوط نا کیا گیا تو یہ ساری محنت ضائع اور بیکار ہو جائے گی ۔

اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اسے دوبارہ مرمت کرکے یہاں شجر کاری کی جائے کوئی تین عشرے پہلے یہاں کیکر کے لاکھوں درخت ہوا کرتے تھے اب تھوڑی سی محنت سے پلکھو کے دونوں جانب دوبارہ کیکر،شیشم اور نیم کے لاکھوں درخت لگائے جاسکتے ہیں جس سے پلکھو کے بندھ بھی محفوظ ہونگے اور ماحول بھی کافی خوشگوار ہوجائےگا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی جماعتوں ٫ نجی سکولوں اور کاروباری اداروں کو بھی اس احسن عمل کا حصہ بننا چاہئے، عام آدمی بھی اس مسئلے کو اجاگر کرے اور کیا ہی بہتر ہو سیالکوٹ اور وزیراباد کا ہر شہری اپنی طرف سے کم ازکم ایک پودا نالہ پلکھو پہ ضرور لگائے اور اس کی نگہداشت کا اہتمام کرے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر اور صاف ستھرے ماحول میں پرورش پاسکیں ۔


 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.