راجپوتوں کا ہیرو

لاہور سے تقریباً400 کلومیٹر، دہلی سے 125 کلومیٹر اورپانی پت کے مشہور میدان جنگ سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہندستان کے صوبے ہریانہ کے شہر کرنال کے پاس ترائن یا تراوڑی کا مشہور میدان جنگ ہے ۔ترائن یا تراوڑی کے مقام پر مسلمان سپہ سالارسلطان محمد غوری اور برصغیر کے مشہور راجپوت راجہ پرتھوی راج چوہان کے درمیان دو لڑائیاں ہوئیں۔ پہلی لڑائی میں راجپوت انتہائی بہادری سے لڑے جب کہ سلطان کے ساتھی میدان میں ان کے تابڑ توڑ حملوں کی تاب نہ لا کر اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور میدان سے فرار ہو گئے۔یوں سلطان کو ایک بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سلطان بمشکل جان بچا کر زخمی حالت میں واپس آیا اور ان میدان سے بھاگنے والے تمام سرداروں کو بلا کر انہیں سزا دی اور بعد میں ان کے سر تن سے جدا کر دئیے۔اس وقت ہندستان کے شمال کے تمام علاقوں میں پرتھوی راج چوہان اور جنوب کے تمام علاقوں میں اس کا رشتہ دار جے چند حکمران تھے۔ دونوں کے باہمی تعلقات کچھ خوشگوار نہ تھے۔پرتھوی راج چوہان کی فتح سے جے چند خوش نہیں تھا کیونکہ وہ اس کی شکست کا خواہش مند تھا۔

راجہ جے چند کی خوبصورت بیٹی نجوگتاپرتھوی راج کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سن سن کر اس پر فریفتہ تھی اور اس سے شادی کی خواہش مند تھی۔ یہ بات پرتھوی راج کو بھی پتہ تھی اور وہ بھی غائبانہ شہزادی کادیوانہ تھا۔نجوگتا کی شادی کے لئے تمام راجے اکٹھے کئے گئے تاکہ سوئمبر کی رسم ادا کرنے کے بعد شہزادی کی شادی کر دی جائے۔ تعلقات کی خرابی کے باعث اس محفل میں شرکت کی پرتھوی راج چوہان کو دعوت نہ دی گئی مگر اپنے مخبروں کے ذریعے پرتھوی راج چوہان کو پل پل کی خبر تھی۔ اس ساری صورت حال پر اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ شہزادی کی مرضی کے خلاف کسی دوسرے کو اس سے شادی کرنے نہ دی جائے۔ چنانچہ ریاست کے تمام سورما اور سردار شہزادی کو بچانے چپکے سے بھیس بدل کر اور ہتھیار چھپا کراس محفل میں پہنچ گئے۔ محفل میں تمام راجے بیٹھے تھے اور ان سے پرے ایک طرف پرتھوی راج چوہان کا بت سجایا گیا تھا جس کا مقصد تھا کہ کسی طرح پرتھوی راج چوہان کی بے عزتی کی جائے۔ سوئمبر کی رسم شروع ہوئی تو شہزادی محفل میں ہار لے کر آئی ۔ ہر راجے کی گردن اس ہار کی تمنائی تھی کہ جس کے گلے میں ہار ڈال دے وہی اس کا دلہا ہو گا۔مگر شہزادی ہر ایک کے پاس سے گزرتی پرتھوی راج چوہان کی بت تک پہنچی اور اسے ہار پہنا دیا۔پرتھوی راج چوہان کے سردار اسی لمحے آگے بڑھے اور شہزادی کو اٹھا کراپنے ساتھ لے گئے۔کچھ سردار مزاحمت کے لئے رک گئے اور وہیں لڑائی میں مارے گئے۔ پیچھا کرنے والوں کو روکنے کے لئے ہر تھوڑے فاصلے پر کچھ سردار رکتے اور کم تعداد کے باعث مارے جاتے۔ شہزادی توکسی طرح پرتھوی راج چوہان تک پہنچ گئی مگر عملاًاس کے سارے سرداروں کی قربانی دے کر۔

راجہ جے چند نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے سلطان محمد غوری کو پرتھوی راج چوہان پر حملے کی ترغیب دی اور اپنی مدد کا وعدہ بھی کیا۔ سلطان محمد غوری فوراً اپنی سپاہ لے کر ترائن یا تراوڑی کے میدان میں پہنچ گیا۔پرتھوی راج چوہان اس وقت برے حالات میں تھا۔ اس کے تمام سردار مارے جا چکے تھے۔اب اس کے پورے لشکر میں کوئی بلند ہمت اور جری سردار موجود نہ تھا۔راجہ جے چند بھی اس کا مخالف اور سلطان کا حلیف تھا۔ چند سرداروں کے ساتھ اس نے سلطان محمد غوری کا مقابلہ کیا مگربری طرح شکست کھائی اور گرفتار ہوا۔ سلطان محمد غوری اسے گرفتار کرکے اپنے ساتھ غزنی لے گیا۔وہاں پہنچ کر سلطان نے راجہ کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اسے اندھا کر دیا او پا بہ زنجیرر قید میں ڈال دیا۔ترائن یا تراوڑی کی اس دوسری جنگ میں سلطان محمد غوری کی فتح نے ہندستان کی تاریخ بدل دی۔ وہ ملک جہاں صدیوں سے ہندؤں کا راج تھا، اس دن ہندؤں کے ہاتھ سے نکل گیا۔اس جنگ میں سلطان محمد غوری کی فتح نے یہ فیصلہ دیا کہ اس ملک پر آئندہ ہندؤں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا راج ہو گا ۔چنانچہ چشم فلک نے دیکھا کہ اس کے بعد تقریباًتین سو سال سے زیادہ مسلمان اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔

’چند کوی‘ پرتھوی راج چوہان کے دربار کا شاعر تھا۔ وہ پرتھوی راج چوہان کا انتہائی وفادار تھا۔ وہ پرتھویراج کی گرفتاری اور غزنی منتقلی کے بعد اس کے پیچھے غزنی پہنچ گیا۔وہاں اسے اپنے راجہ کی حالت، کہ وہ اندھا کر دیا گیا ہے اور پا بہ زنجیرقید میں ہے، کی خبر ملی تو بہت اداس ہوا۔ کسی طرح وہ کو شش کرکے سلطان کے دربار پہنچ گیا اوردربار میں اپنی جگہ بنا لی۔ پرتھوی راج چوہان بلا کا تیر انداز تھا۔ چند کوی جیل میں راجہ سے ملا اور اس نے راجہ کو مشورہ دیا کہ اس برے انداز میں زندہ رہنا سورماؤں کا شیوہ نہیں ۔ میں کچھ کرتا ہوں تم سلطان کو ہلاک کر دینا اور یوں خود بھی موت کو گلے لگا لینا یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ چند کوی نے لوگوں کو بتایا کہ اندھا راجہ اتنا اچھا تیر انداز ہے کہ صرف آواز پر ہی بہت ٹھیک نشانہ لگا سکتا ہے۔ سلطان کو پتہ چلا تواسے بھی تجسس ہوا اور اس نے اس بات کی حقیقت جاننے کے لئے چند کوی سے بات کی اور اسے کہا کہ راجہ کو بلاؤ میں اس کا نشانہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

اندھا راجہ دربار میں لایا گیا اور دربار میں ایک طرف قطار میں گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ راجہ کو تیر اور کمان دے دئیے گئے۔اب جس گھنٹی کو ہلایا جاتا، راجہ کا تیر بغیر خطا ہوئے عین اسی جگہ لگتا۔ ابھی یہ کھیل جاری تھا کہ چند کوی نے آگے بڑھ کر راجہ کو آہستہ سے کہا کہ اب موقع ہے۔ سلطان کی آواز آئے تو اس پر تیر چلا دو۔ اگلے لمحے سلطان کی آواز پر راجہ نے سلطان پر تیر چلا دیا جو سلطان کے گلے کو چیرتا باہر جا گرا۔ سلطان کے ہلاک ہوتے ہی سلطان کے ساتھیوں نے راجہ اور چندکوی دونوں کو ہلاک کر دیا۔یوں راجہ اور سلطان ایک ہی وقت میں اپنے انجام سے دوچار ہوئے۔میں پاکستان اور بھارت کے بہت سے راجپوتوں کو ملا ہوں۔ جس طرح سلطان محمد غوری ہمارا ہیرو ہے ، تمام راجپوت مسلمانوں کے اس دشمن پرتھوی راج چوہان کے اس المناک انجام کو اپنے لئے باعث فخر جانتے اور پرتھوی راج کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔ فیض نے ٹھیک کہا ہے کہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘۔ہیرو کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو اس کی قربانی اس کی قوم یاد رکھتی ہے۔


 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500644 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More