یہ تو امیر ہے اس کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے، امیروں کی زندگی کے پردے کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ جانیے

image
 
معاشرے میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک امیر دوسرے غریب اور تیسرے وہ جو ان دونوں کے درمیان میں ہوتے ہیں غربت سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں اور امیروں کی صف میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ عام طور پر امیر طبقے اور دوسرے طبقوں کے درمیان ایک ایسی دیوار حائل ہوتی ہے جو کہ ان کی زندگی کو عام لوگوں سے پوشیدہ رکھتی ہے-
 
امیر افراد کے بارے میں عام لوگوں کے ذہنوں میں نظریات
چونکہ امیر آدمیوں تک دوسرے طبقات کے افراد کی پہنچ بہت محدود ہوتی ہے اس وجہ سے وہ کچھ خود ساختہ نظریات اپنے دلوں میں ان کے حوالے سے بنا لیتے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے ہیں-
 
امیروں کے بچے بھی امیر ہوں گے
انسان اپنے بچوں کے لیے ہی کماتا ہے اس وجہ سے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر وہ امیر ہے تو اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت دے کر کسی ایسے مقام تک پہنچا دے کہ وہ اس سے زيادہ امیر ہو سکے ۔ عوام کا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی امیر ہے تو اس کی امارت کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلے گا اور اس کے بچے بھی اس پیسے کو ضرب دے کر مزید بڑھائیں گے- لیکن ایک تحقیق کے مطابق یہ نظریہ غلط ہے کیوں کہ 70 فی صد لوگوں کی دولت ان کی اگلی نسل تک منتقل نہیں ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس کا سبب قسمت ہوتا ہے اور بعض اوقات اگلی نسل اس قابل نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس پیسے کو سنبھال سکے اس وجہ سے ستر فی صد خاندانوں کی اگلی نسل امارت کو برقرار نہیں رکھ سکتی ہے اور عام لوگوں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
 
امارت کا سبب وراثت ہوتا ہے
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ باپ دادا سے ملنے والی دولت امیروں کی امارت کا سبب ہوتی ہے۔ جب کہ ایک سروے کے مطابق یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں ستر فی صد وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی انتہائی غربت میں شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ امیروں کی صف میں شامل ہوئے-
 
image
 
امیروں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے
غریب جب تپتی دھوپ میں صبح سے شام تک کام کرتا ہے اور رات کو اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے یہی سوچتا ہے کہ امیروں کےعیش ہیں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں ان کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے- جب کہ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے اگر ایک غریب آدمی صبح سے شام تک کام کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں امیر آدمی کے کام کرنے کا دورانیہ اس سے بہت زیادہ ہوتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطاب‍ق غریب آدمی اگر ہفتے میں پچاس گھنٹے کام کرتا ہے تو امیر آدمی کا ہفتے بھر میں کام کرنے کا دورانیہ ساٹھ سے ستر گھنٹوں تک ہو سکتا ہے جو کہ غریب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے-
 
امیر آدمی قرض دار نہیں ہوتے ہیں
بظاہر نظرآنے والی شان و شوکت، مہنگی گاڑی، بڑا بنگلہ اور قیمتی لباس کو دیکھ کر غریب امیروں کے حوالے سے یہ سوچتے ہیں کہ ان کو پیسے کی کوئی تنگی نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کو مہینے کے آخری دنوں میں کسی سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ جب کہ معاشیات کے ماہرین کے مطابق امیر آدمی سب سے زیادہ قرضے لیتے ہیں اور ان کے چیک باونس ہونے کی شرح بھی غریبوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے ہہاں تک کہ بہت سارے امیر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر تو امیر نظر آتے ہیں مگر بنک نے ان کی جائیدادوں کی نیلامی کے اعلانات تک کر رکھے ہوتے ہیں-
 
امیر لوگ بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں
امیر لوگوں کے رکھ رکھاؤ اور طور اطوار کو دیکھ کر ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور انہوں نے مہنگے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رکھی ہو گی اور ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے- لیکن بل گیٹس کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جو کہ کسی بڑی یونی ورسٹی کا گریجوئٹ نہیں ہے اس کے باوجود اس کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے-
 
image
 
امیر لوگ خوشگوار زندگی گزارتے ہیں
عام لوگوں کے گھروں میں ہونے والے بڑے جھگڑوں کی وجہ پیسے کی کمی ہوتی ہے جب کہ امیر گھرانوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے اس وجہ سے لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ امیر لوگوں کو چونکہ مالی مسائل کا سامنا نہیں ہوتا ہے اس وجہ سے ان کی زندگی خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے-  مگر خوشیاں پیسوں سے خریدی جانے والی نعمت نہیں ہے امیروں کی زندگی کے مسائل اور پریشانیاں اس سے جدا ہوتی ہیں جو ان کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں-
 
یاد رہے کہ امیر بھی عام لوگوں کی طرح انسان ہوتے ہیں اور اللہ تعالی نے اس زمین کا نظام اس طرح بنایا ہے جس میں دنیا کی ہر نعمت کی تقسیم اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ اس وجہ سےامیر بھی انسان ہی ہیں وہ بھی ان تمام مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں جن کا سامنا ایک عام انسان کو کرنا پڑتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: