باجی صاحبہ

قاری صاحب کی داڑھی مبارک ان کے مسلسل بہتے آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی مسلسل بہتے آنسوؤں کے ساتھ اُن کے منہ سے دعاؤں کا آبشار بھی مسلسل جاری تھا ۔ قاری صاحب باجی صاحبہ کے انتقال پر مُجھ سے افسوس کر نے آئے تھے قاری صاحب لاہور کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد میں امامت اور بچوں کو قرآن پڑھانے کاکام کرتے ہیں آٹھ بچوں کا باب ہونے کی وجہ سے شدید مالی بد حالی کا شکار تھے لیکن چند سال پہلے جب باجی صاحبہ قاری صاحب کی زندگی میں آئیں توقاری صاحب کی زندگی اور گھر سے غربت پریشانی کے گھنے سیاہ بادل چھٹتے چلے گئے اب اندھیروں کہ جگہ ضروریات زندگی کی آسائشوں کے اجالے پھیلتے چلے گئے قاری صاحب باجی کی وفات پر بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے قاری صاحب دنیا کی نظروں میں کسی نیک ولیہ پاکباز عبادت کار عورت کی وفات پر نہیں رو رہے تھے بلکہ وہ تو زمانے کی نظروں میں طوائف زادی ناچ گانے والی ایکڑس کی جدائی پر خون کے آنسوؤں سے رو رہے تھے قاری صاحب کی نظر میں وہ طوائف زادی ناچ گانے والی اداکارہ نہیں بلکہ ایک رحم دل شفیق دوسروں کا درد رکھنے والی نیک ولیہ عورت تھی اب جب وہ شفیق عورت دنیا سے چلی گئی تو قاری صاحب اُس کا افسوس کر نے میرے پاس آئے تھے کیونکہ دس سال پہلے اِس باجی سے میں نے ہی قاری صاحب کو ملوایا تھا میں تو تعارف کا بہانہ ہی بنا لیکن میرے ملانے کے بعد پھر قاری صاحب اور باجی کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو گیا تھا جب قاری صاحب رو رہے تھے تو میں خدا کی قدرت پر حیران کہ رب تعالی کہاں کس طرح کیسے کیسے لوگوں سے ملواتا ہے اور پھر کس طرح توبہ کے غسل سے اندرونی سیاہی گناہ کو دھو کر گناہ گار کو نیکی کے راستے پر ڈال دیتا ہے یا حق تعالی کو کسی گناہ گار کے عرق ندامت میں نکلے آنسوؤں پر اِس قدر پیار آتا ہے کہ اُس کے لیے ہدایت کے دروازے کھول کر اُس کو گناہوں کی دلدل سے نکال کر نیکی کی شاہراہ پر ڈال کر اُس کی دنیا و آخرت کو سنوار دیتا ہے مجھے آج بھی وہ ایک صاحب یاد ہیں جو اپنے ذاتی مسائل کے لیے میرے پاس آتے تھے اہل حق سے پیار کر تے تھے مُجھ مشت خاکستر سیاہ کار کو بھی کوچہ تصوف کا بندہ سمجھ کر آجاتے تھے ملک صاحب کے مسلسل آنے سے میرا اُن کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار ہو چکا تھا ایک دن مجھے کہنے لگے پروفیسر میں آپ کے پاس آنے سے پہلے شراب کباب شباب کا پکا رسیا تھا اپنی خاندانی دولت عیا شیوں میں اڑائی تھی عیاشی کے اُس دور میں پاکستان کے مختلف جسم فروشی کے اڈوں پر اپنی جنسی ہوس بجھانے جاتا تھا اُس آوارہ گردی میں میری ملاقات فلم انڈسٹری کی ناکام ایکٹرس سے ہوئی جو فلموں میں ناچ یا اکسٹرا کا رول ادا کرتی تھی اِس امید پر کہ ایک دن اُس کی قسمت کا ستارہ بھی چمکے گا وہ مسلسل ناکامیوں کے باوجود فلمی دینا میں دھکے کھا رہی تھی اِس کے ساتھ ساتھ راتوں کو امیرزادوں کے اڈوں پر ناچ گانے کے پروگرام بھی کرتی اپنی تما م کوششوں سفارشوں کے باوجود و ہ فلمی دنیا میں کامیاب نہیں ہورہی تھی اُس کی وجہ یقینا حق تعالیٰ کی ذات تھی جس نے اُس کے لیے راہ ہدایت کا منصوبہ بنا رکھا تھا ملک صاحب کی اس سے دوستی ہوئی تو ملک صاحب اُس کی زلف کے اسیر ہو کر رہ گئے عشق کی بیماری میں مبتلا ہو ئے تو ملک صاحب نے اُس پر پابندیاں لگانی شروع کردیں کہ اب تم بد معاشوں شرابیوں کے اڈوں پر جا کر ناچ گانے کے فنکشن نہیں کرو گی یہاں سے ملک صاحب کے اُس سے اختلافات شروع ہو گئے کیونکہ وہ اپنے خاندان اور اپنے تین بچوں کا پیٹ اِسی مکروہ دھندے سے پالتی تھی جب ملک صاحب نے بار بار اُس کو روکا تو اختلافات شدید لڑائی کی شکل اختیار کرگئے دونوں میں علیحدگی ہو گئی لیکن یہ علیحدگی ملک صاحب سے برداشت نہ ہوسکی پھر دامن مراد پھیلائے اُس کے در پر تھے ایک نیا پیکج لے کر کہ تم اپنے خاندان کے لیے رزق روٹی کے لیے پریشان ہو تو میں اِ س میں تمہاری مدد کر تا تم کو بیوٹی پارلر کھول کر دیتا ہوں لیکن تم کو صرف گانے کی اجازت ہے شروع میں تو انکار کیا گیا لیکن ملک صاحب نے جب بہت زور لگا یا تو باجی مان گئی اب لاہور کے اچھے علاقے میں باجی کو اچھا خاصا پیسہ لگا کر ملک صاحب نے بیوٹی پارلر بنا دیا اب باجی کو ایک رات میں بہت زیادہ پیسہ کمانے کی عادت تھی یہاں پر مزدوری کے تھوڑے تھوڑے پیسے آتے لیکن ملک صاحب کے لگے سرمائے کہ وجہ سے پارلر کو چلانے کی کوشش کر تی رہی اب پارلر چلانے کے لیے مختلف روحانی بابوں کے پاس بھی باجی اور ملک صاحب نے جانا شروع کر دیا تو بابوں نے اپنی روایتی ڈرامہ بازی کہ تم پر اور پارلر پر بہت خطرناک کالا جادو کیا گیا ہے جب تک اُس کا توڑ نہیں ہو گا پارلر پر گاہکوں کا رش نہیں ہو گا جب پر بنگالی بابے نے مختلف خوفناک کہانی سنائی تو باجی اور ملک صاحب نے یقین کر لیاکہ پارلر پر شدید بندش اور کالے جادو کے اثرات ہیں اب پارلر مختلف بابوں کی لیبارٹری بن کر رہ گیا کیونکہ ملک صاحب میرے پاس اپنی خاندانی مسائل کی وجہ سے آرہے تھے لیکن یہ جرات نہیں تھی کہ اپنے خفیہ عشق کے بارے میں مجھے بتائیں لیکن جب بہت سارے بابے ناکام ہو گئے تو ایک دن دبے لفظوں میں باجی اور اُس کا پارلر میرے ساتھ شئیر کیا اور ملتجی لہجے میں بولے جناب میں نے آپ کا ذکر بہت کیا ہے اب میری دوست مجھے مجبور کر رہی ہے کہ آپ کو لے کر پارلر پر آؤں لہذا آپ کسی دن وقت نکالیں میں آپ کو پارلر پر لے کر جانا چاہتا ہوں شروع میں تو میں انکار کر تا رہا لیکن جب ملک صاحب نے بتایا کہ آپ کے ناجانے سے بنگالی جادوگروں کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو میں دس سال پہلے باجی کے پارلر پر اُس وقت گیا جب گاہکوں کی آمد نہیں ہوتی باجی دوپٹہ اوڑھ کر بہت عزت سے پیش آئی میں نے اُس کو تسلی کے لیے پڑھائی وغیرہ وظائف وغیرہ بتا کر آگیا ساتھ ہی دل سے دعا کی کہ اﷲ تعالی اِس کی توبہ کو قبول کر ے باجی نے میرا مو بائل نمبر لے لیااور جو میں نے بتایا وہ کرنا شروع کر دیا ایک دن بولی پروفیسر صاحب میں پڑھی لکھی نہیں قرآن نہیں پڑھ سکتی آپ کسی قاری صاحب کی ڈیوٹی لگائیں جو یہاں آکر قرآن مجید پڑھ جایا کرے تو میں نے اِن قاری صاحب کو ایڈریس دے کر وہاں بھیج دیا میں پھر دوبارہ پارلر پر نہیں گیا اب قاری صاحب نے وہاں ریگولر جانا شروع کر دیا اﷲ نے قاری صاحب کی بھی مدد کر نی تھی چند مہینوں میں ہی پارلر پر اس قدر ش لگا کہ باجی سے وقت لینے کے لیے لوگوں کو انتظار کر نا پڑتا پارلر کی کامیابی سے باجی قاری صاحب کی بہت عزت کر نا شروع ہو گئی خود قاری صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کر دیا قاری صاحب کی دو بیٹیوں کی شادی کی گھر بنوا کر دیا قاری صاحب کو عمرے پر بھیجا اور قاری صاحب کا ماہانہ اچھا خاصہ وظیفہ بھی لگا دیا قرآن مجید قرآنی وظائف اور قاری صاحب کی صحبت سے ہر برائی سے توبہ کی نیکی کے کاموں میں پیسہ لگانا شروع کر دیا قاری صاحب کے ذریعے مجھے بھی سلام بھیج دیتی دولت کی ریل پیل سے خدا پر یقین بڑھ گیا پانچ وقت کی پکی نمازی بن گئی اپنی کمائی کا ایک حصہ غریب بچیوں کی شادی پر لگاتی قاری صاحب کو استاد مان کر اُن کے سارے اخراجات پوری کرتی اور آج دس سال بعد قاری صاحب اپنی شاگردہ محسنہ کی وفات پر میرے سامنے رو رہے تھے اِس بانجھ معاشرے میں علما دین نیکی کے دعوے داروں نے مُجھ غریب کی مدد نہ کی لیکن باجی صاحبہ نے میری ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا قاری صاحب واپس جانے لگے تو بولا قاری صاحب خدا لازوال عبادت سے زیادہ انسانوں کی خدمت والوں سے خوش ہو تا ہے اور باجی صاحبہ نے آپ جیسے انسانوں کی خدمت کی اور رب کے قریب ہو گئیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.