’’مختصر لباس ‘‘ وزیراعظم کا قابل قدر بیانیہ

وزیراعظم پاکستان نے گذشتہ دنوں امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں جنسی استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجوہات کے بارے میں کہا کہ’’ہمارے پاس یہاں ڈسکو یا نائٹ کلب نہیں ہیں ، یہ ایک مکمل طور پر مختلف معاشرہ ہے مگرجب آپ لوگوں کو اکسائیں گے تو اس کے نتائج ہونگے کیونکہ مرد روبورٹ نہیں ہے ،عورت کم کپڑے پہنے گی تو اس کا اثر ہوگا ‘‘ بے پردگی اور فحاشی کو ریپ کی وجوہات قرار دینے پروزیراعظم کو ملکی ہی نہیں بین الاقوامی طور پر بھی شدید تنقید کا سامناکرنا پڑا ہے اور مذکورہ بیان تمام حلقوں میں زیر بحث ہے تقریباً ہر کوئی اپنا مؤقف دے رہا ہے ‘تاہم حیرت یہ ہے کہ اکثریتی طور پر اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ خان صاحب کے بیان سے کہیں نہ کہیں یہ تاثر ملتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ذمہ دار صرف اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نہیں بلکہ وہ خود بھی اس کی ذمہ دار ہیں اور کسی ملک کے وزیراعظم کا ایسا بیان جنسی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے الغرض ہر طرف سے بحث و مباحثے جاری ہیں۔ اکثریت خان صاحب کی نجی زندگی ،رہن سہن اور سابقہ بیانات کو ہدف بنا رہی ہے کہ قول و فعل میں تضاد ہے حالانکہ بات صرف یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کی بنا پر کہہ رہے ہیں کہ جب خواتین اپنی زینت و آرائش اور جسمانی اعضاء کی بھرپور نمائش کرتی ہیں تو مرد اپنی نفسانی خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتا ۔اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آپ ایک خونخوار شیر کے سامنے گوشت اور خون رکھ دیں تو ممکن ہے کہ وہ جھپٹے ۔۔ لہذاکسی حد تک بات سچ ہے اور سچ کڑوا ہوتاہے بیس دہائیوں سے پاکستانی معاشرہ مغربی چکا چوند میں اسلامی اقداروروایات کو دفنا چکا ہے ، میڈیا ہیلپنگ ہینڈ بن چکا ہے ، دنیا جان گئی مگر ہم سچ سننا بھی نہیں چاہتے ۔

حالانکہ گذشتہ برس فرانس نے بھی ایک رپور ٹ میں پاکستان کے تھیٹر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود گندا تھیٹر چلاتا ہے جس میں عورت کو سرعام نچایا اور ذومعنی جملوں سے تسکین حاصل کی جاتی ہے اور انتہا اس وقت ہوتی ہے جب معصوم اذہان سوشل میڈیا پر یہ سب دھوم دھڑکے اور بے راہروی دیکھتے ہیں المختصر ہمیں آئینہ دکھایا گیا تھا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا بہترین مذہب اور عقیدہ آپ کا ہے تو پھر بہترین عمل کر کے دکھانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے اگر آپ بہترین عمل دکھانے میں ناکام ہیں تو اپنے عقیدے کا پرچار کرنا چھوڑ دیں کیونکہ جو عقیدہ آپ کو بدل نہیں سکا وہ کسی اور کو نہیں بدلے گا ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج ہم عورت کی مورت اوردلربا ادائیں دکھا کر ہی چیزیں بیچتے ہیں اوراداکار وں کے پہناوے سیکس فری ممالک کے پہناووں کو پیچھے چھوڑ چکے درحقیقت وزیراعظم لفظوں کے ہیر پھیر میں الجھ گئے وہ کہنا یہی چاہتے تھے کہ آپ میڈیا کے ذریعے جذبات ابھاریں گے تو جنسی ہیجان بڑھے گا مگر وہ دوٹوک لفظوں میں اپنا مدعا بیان نہیں کر سکے کیونکہ انٹرویولینے والا امریکی تھا اور ان کی کمیونٹی لنڈے کے لبرلز سے بھری پڑی ہے جو میڈیا انڈسٹری کے بہت قریب ہیں اور انھیں فخریہ فالو کرتے ہیں ۔لیکن یہ حتمی طور پر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہر مرد نفسانی خواہشات کے سامنے بے بس ہے کیونکہ بہکنے کا امکان اس وقت ہو سکتا ہے جب حالات سازگار ہوں ایسے ہی ہر کسی کی سوچ کو بھی غلط نہیں کہہ سکتے اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو خواتین مختصر لباس پہنتی ہیں ان کی سوچ غلط ہوتی ہے کیونکہ اکثریت رواجاً فیشن اختیار کر تی ہیں اور میڈیا جو دکھاتاہے وہی عام ہو جاتا ہے اور دیکھا دیکھی اپنایا جاتا ہے اور بھی کافی چیزیں ہیں جو ہمیں اس چیز پر آمادہ و تیار کرتی ہیں کہ جو باتیں ہمیں صراط مستقیم کی طرف گامزن کرتی ہیں ان کو سراہیں کیونکہ ہم اپنی مذہبی اقدار کی پاسداری کی بدولت ہی مسلمان کہلاتے ہیں بے شمار لوگ اس بیان پراختلاف رائے بنا بیٹھے ہیں حالانکہ اسلام نے بھی واضح احکامات دئیے ہیں کہ جن اعضاء کی نمائش سے جنسی تحریک پیدا ہوتی ہے انھیں ڈھانپیں تو اس لحاظ سے تو وزیراعظم کا بیانیہ قابل قدر اور ٹھیک ہے اور اسلامی ریاست میں ایسا ہونا چاہیے

باقی جنسی استحصال ایک پرتشدد انتہائی ظالمانہ نا قابل معافی فعل ہے جو سخت سے سخت سزا کا متقاضی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ اس پر جب بھی بات ہوتی ہے توبحث و مباحثے میں الجھا کر مجرمان کو جواز فراہم کر تے ہوئے شرعی سزا سے پہلو تہی اختیار کی جاتی ہے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ملک میں ایسے خوفناک جرم پر شرعی سزا دینے میں کیا رکاوٹ ہے اور کونسی ایسی انسانیت ہے جو ایسی حیوانیت پر بھی مجرمان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے جبکہ ایسے مجرم ملک و قوم کیلئے ناسور ہوتے ہیں اورماہرین نفسیات کے مطابق بھی ان کے پاس کسی کے درد کا احساس نہیں ہوتا، اپنے تئیں مفروضے گھڑ تے ہیں اورانھی کی بنیاد پر جنس مخالف کو چیلنج سمجھ لیتے ہیں پھر اپنے ہر جرم کی کوئی نہ کوئی دلیل بھی تلاش کر کے خود کو مطمئن بھی کر لیتے ہیں۔ مختلف واقعات کا جائزہ لیں تو یہی سامنے آتا ہے کہ ہر سرکش ریپ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے کم بلکہ طاقت کے اظہار کے لیے زیادہ کرتا ہے اور اسے یہ طاقت قانونی کمزوری دیتی ہے یعنی اس کے ذہن میں سزا کا خوف نہیں ہوتابلکہ یقین ہوتا ہے کہ وہ دے دلا کرچھوٹ جائے گا اگر آپ ریپ کیسسز ڈیل کرنے والے تفتیشی افسران سے ملیں تو وہ آپ کو لازماً بتائیں گے کہ ایسے کیسسز کو سنجیدہ نہیں لیاجاتا جس کیوجہ سے مجرمان پکڑے نہیں جاتے اور سزا بھی نہیں پاتے بالفرض سزا ہو بھی جائے تو اچھا وکیل کر کے ساز باز کر کے چھوٹ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جوہمارے ملک میں جو ایک بار جیل چلا جاتا ہے پھر وہ گینگسٹر بن کر نام پاتا ہے کچھ انصاف کا معاملہ بھی مشکوک ہے کہ دیکھا گیا ہے کہ پھانسی کی سزا انھیں ہوئی جنھیں فوت ہوئے کافی سال گزر چکے تھے تو ایسے میں اس جرم کے سد باب کے لیے عبرتناک شرعی سزاہی وقت کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو پاکستان ریڈ اور گرے لسٹ سے نکل آئے مگر ریسپستان لسٹ میں شامل کر دیا جائے ۔
 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.