جس دن سے مدرسے کے مولوی صاحب کی اپنے شاگرد کے ساتھ فحش
ویڈیو وائرل ہوئی ہے وطن عزیز میں تو بھونچال سا آگیاہے ارباب علم و دانش
کا وہ طبقہ جو اولیاء اﷲ اہل حق سے بیر رکھتا ہے اُس کو تو شاید مو قع ہی
مل گیا اُس نے اپنی توُ پوں کے دہانے کھول دئیے اور نفرت و حقارت کی گو لہ
باری شروع کردی مجھے بھی بہت سارے لوگوں کے فون پیغامات آئے کہ یہ اﷲ والے
کیا کررہے ہیں کیا اﷲ والوں کا حقیقی کردار چہرہ یہ ہے یہ مذہب کے
علمبرداروں نے کیسی فحش حرکات شروع کر دی ہیں یہ ہوتے ہی ایسے ہیں یہ خود
کو مذہبی مقدس چادر میں چھپا کر رکھتے ہیں جبکہ اِن کا اصل کردار یہی ہے
منکرین روحانیت کو تو ایسے مواقعوں کی تلا ش ہی رہتی ہے بہت سارے لوگوں نے
پہلے اپنے اندازسے اپنے کئے بغض کا اظہار نفرت و حقارت سے کیا ۔ایک بندے کے
گناہ میں سب نیک لوگوں کو لپیٹ کر رکھ دیا ایسے شدت پسند لوگوں کی خدمت میں
عرض ہے کہ کالی بھیڑیں زندگی کے کس شعبے میں نہیں ہیں معاشرے کا کونسا طبقہ
ایسا ہے جہاں پر ہمیں قول و فعل کا کھلا تضاد نظر نہیں آتا لیکن مخالفین جب
اپنے باطنی بغض کا اظہار کر نا چاہتے ہیں تو ایک شخص کی غلطی یا گناہ باقی
نیک لوگوں پر لگا دیتے ہیں دوسری بات مولوی اور صوفی میں بہت فرق ہے مولوی
ظاہری عبادت پر زور دیتا ہے جبکہ صوفی باطنی عبادت پر بھی کار بند ہو تا ہے
ساتھ ہی صوفی ہمہ وقت تزکیہ نفس پر کار بند ہو تا ہے آپ تاریخ کے اوراق پڑھ
لیں ہر صفحے پر ہمیں مولوی کو چہ اقتدار کی جھوٹی ہڈیاں چوستا نظر آتا ہے
جبکہ صوفی جابر حکمران کو للکارتا نظر آتا ہے آپ پاک و ہند کی تاریخ کا
مطالعہ کریں تو ہر دور میں ایسے جانباز حق گو ہمیں نظر آتے ہیں جو ظالم و
جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کو ظلم سے روکتے نظر آتے ہیں
ایسا ہی جانباز حق گو ہمیں مسلم حکمران محمد بن تغلق کے دور میں نظر آتا ہے
علاؤ الدین خلجی نے 84کامیاب جنگوں میں سارے ہندوستان کے خزانے اپنے محل
میں جمع کر لیے اُس کی وفات کے بعد خانہ جنگی کے بعد اُس کا صوبے دار غیاث
الدین تغلق تخت دہلی پر جلوہ افروز ہو تا ہے اُس کے تھوڑے دور حکومت کے بعد
اُس کا بیٹا محمد بن تغلق ہندوستان کے تخت پر پورے کرو فر شان سے براجمان
ہو تا ہے یہ مسلم حکمرانوں میں سب سے زیادہ عجیب و غریب بادشاہ تھا حافظ
قرآن مفتی پانچ وقت کا نمازی لیکن ظلم و بربریت کا پتلہ اِس کا ظلم و ستم
عوام پر ہی نہیں اولیاء کرام بھی اِس کا مشق ستم بنے مشہور مورخ ابن بطوطہ
اِس کے بارے میں لکھتا ہے یہ شکار کا بہت شوقین تھا جہاں ہزاروں جانوروں کی
خون ریزی کرنا پھر اِس کا شوق انسانوں کی جان لینے لگا اِس کی حکمرانی میں
شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جس میں اِس کے سامنے کسی بے گناہ کو بے دردی
سے قتل نہ کیا گیا ہو مجموعہ اضداد یہ شخص عجیب و غریب مزاج کا مالک تھا
اچانک ایک دن فیصلہ سنایا کہ ساری عوام دہلی شہر کو چھوڑ کر نئے شہر دیو
گیر میں آباد ہو جائیں جس کو اِس نے اپنا تخت بنا لیا تھا یہ علاقہ دکن میں
دہلی سے دور تھا جس کا نام دولت آباد رکھ دیا گیا حکم یہ جاری کیا کہ دہلی
کے تمام مرد عورتیں بوڑھے بچے جوان دہلی کو چھوڑ کر دولت آباد چلے جائیں
اِس طرح دہلی کا بارونق دہر ویرانی کا منظر پیش کر نے لگا لوگ اپنے گھروں
کو چھوڑتے وقت دیواروں سے لپٹ لپٹ کر روتے رہے لیکن اِس کو کسی پر ترس نہ
آیا یہ وہی بادشاہ تھا جس نے تخت نشین ہو تے وقت عادل شاہ کا لقب اختیار
کیا تھا ستم ظریفی یہ کہ عادل شاہ ہو کر عوا م پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ
رہا تھا متشدد مزاج اِس قدر کے جنگلی جانوروں کی بجائے انسانوں کے خون سے
اپنے تیروں تلواروں خنجروں کی پیاس بجھاتا مختلف قسم کی دل خراش سزائیں دے
کر ان کو قتل کر کے مقتولین کے سر کاٹ کر بلند مقامات پر کئی دن لٹکائے
رکھتا تاکہ عوام کے دلوں پر دہشت بٹھائی جا سکے ایک بار فوج کیساتھ نکلا تو
کئی میل تک ہزاروں انسانوں کا خون بہایا گیا اِس کے اِس مزاج کی وجہ سے
اکثر مورخین اِس بادشاہ کو عادل شا ہ کی بجائے خونی شاہ کے نام سے یاد کر
تے ہیں اپنے مزاج کی تسکین کے لیے انسانوں کو مختلف انداز سے سزائیں دیتا
جب کسی کا برا دن آتا اور وہ اِس کی گرفت میں آتا اور سلطان محمد پہلے سے
ہی فیصلہ کر چکا ہو تا تھا کہ اِس کو سزا دینی ہے تو خود کو نیک عادل پارسا
ثابت کر نے کے لیے اُس کو قاضی کے سامنے پیش کر تا اگر قاضی اِس کے فیصلے
سے اختلاف کی جسارت کر تا تو اُس سے طویل بحث و مباحثہ کر تا انہیں قائل
کرتا کہ اِس کو ہر حال میں سزا میں سزا دو مفتی بیچارے اپنی جان بچانے کے
لیے اِس کی ہاں میں ہاں ملاتے پھر یہ اُس شامت کے مارے انسان کو بے دردی سے
قتل کر ا دیتا طبیعت میں انتقام مزاجی اور بے قراری اِس قدر زیادہ تھی کہ
اگر قاضی نے فیصلہ دے دیا تو چاہے آدھی رات کا وقت ہو تا یہ پھر رات کوہی
اُس شخص کو قتل کرادیتا اُس کو معاف نہ کرتا اتنی شیطانی ذہانت چالاکی کو
اپنے مزاج کی تسکین کے لیے خوب استعمال کرتا اگر کوئی قاضی بادشاہ کو
بتاتاکہ یہ مجرم نہیں ہے بادشاہ سلامت آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے تو یہ قاضی
سے قائل ہونے کی بجائے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقدمے کو دوسرے دن پر
ملتو ی کردیتا پھر رات کو ایسے دلائل سوچتا کہ قاضی کو مطمئن کر کے اپنے
مرضی کا فیصلہ کرواسکے پھر کئی دن لگا کر مختلف ترکیبیں سوچ کر بے گناہ کو
سزا دلا کر اِس کو سکون ملتا ہندوستان پر مسلم حکمرانوں میں اِس جیسا
مجموعہ اضداد حکمران کوئی دوسرا نہیں گزرا کیونکہ دوسرے بادشاہ اگرشراب
شباب ناچ گانے میں مشغول نظر آتے تو کھل کر دربار میں کرتے وہ نیکی پارسائی
کا دعوی نہ کرتے لیکن یہ نماز روزے کا پابند مذہبی عبادات پر کاربند اسلامی
احکامات کا ماننے والا بزرگان دین سے عقیدت و احترام کا خوب مظاہرہ کرتا
ایک طرف تو بزرگان دین اولیاء حق سے خوب عقیدت کا اظہار کرتا حضرت خواجہ
نظام الدین اولیاء ؒ کی زندگی میں اُن کی قدم بوسی کر تا اُن کے جنازے کو
کندھا دیتا اُن سے بھر پور عقیدت کا اظہار کر تا اپنی من مانی کر نا والا
محمد بن تغلق اپنی خواہشات کی تکمیل میں خزانوں کے منہ کھول دیتا اچانک
خیال آیا کہ میرے پاس بہت بڑا خزانہ ہے لہذا ایک لاکھ کا لشکر تیار کر کے
اُس کو چین کی تسخیر پر بھیج دیا جو موسمی شدت سے راستے میں ہی ہلاک ہو گئے
پھر اچانک خیال آیا سونے چاندی کی جگہ چمڑے کے سکے جاری کر دئیے جب لوگوں
نے ایسے گھروں میں سکے بنانے شروع کئے تو فیصلہ واپس لینا پڑا خود کو عقل
کل سمجھنے والا یہ بادشاہ مظلوم عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا
علما دین ارباب علم و دانش سب اِس کے قہر کے سامنے سر تسلیم کر چکے تھے کہ
اُس مشکل وقت میں بزم تصوف سے ایک جانباز جرات کا پیکر درویش شیخ شہاب
الدین احمد جام اٹھا اور بادشاہ کو للکار کر کہا کہ محمد بن تغلق عادل شاہ
نہیں بلکہ خونی شاہ ہے جو عوام پر عدل کرنے کی بجائے ظلم کے پہاڑ توڑرہا ہے
یہ الفاظ ایک مرد درویش کے منہ سے ہی نکل سکتے تھے اِن الفاظ کی باز گشت جب
شاہی ایوانوں تک پہنچی تو زلزلہ آگیا کہ شیخ جام کو جرات کیسے ہوئی محمد بن
تغلق کو ظالم شاہ کہنے کی ۔
|