#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنُور ، اٰیت 30 ، 31
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
للمؤمنین
یغضوا من
ابصارھم و
یحفظوا فروجھم
ذٰلک ازکٰی لھم ان اللہ
علیم بما یصنعون 30 وقل
للمؤمنٰت یغضضن من ابصارھن
ویحفظن فروجھن ولایبدین زینتھن
الاماظھر منھا ولیضربن بخمرھن علٰی
جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او
اٰبآھن اواٰباء بعولتھن او ابناءھن اوابناء بعولتھن
اواخوانھن اوبنی اخوانھن اوبنی اخواتھن اونساءھن
اوماملکت ایمانھن اوالتٰبعین غیر اولی الاربة من الرجال
اوالطفل الذین لم یظھرواعلٰی عورٰت النساء ولایضربن بارجلھن
لیعلم مایخفین من زینتھن وتوبواالی اللہ جمیعاایه المؤمنون لعلکم
تفلحون 31
اے ھمارے رسُول ! آپ ایمان لانے والے مردوں کو اِس اَمر کی تعلیم دیں کہ
اگر گھر کی چاردیواری کے اندر اور باہر اَچانک ہی اُن کے سامنے اُن کی ماں
، اُن کی بہن ، اُن کی بیوی اور اُن کی بیٹی کے علاوہ کوئی اَن جنبی عورت
آجاۓ تو وہ اپنے آوارہ دیدوں پر اپنی پَلکوں کا پردہ ڈال لیا کریں اور وہ
اپنے گھر کے اندر و باہر ہر ایک جگہ پر اپنے اور پراۓ جسم میں جنسی ہیجان
پیدا کرنے والے اعضاۓ جسم کو اپنے لباسِ جسم میں چُھپا کر رکھا کریں تاکہ
اُن کے اِس تزکیہِ جسم و جان سے اُن کے معاشرے میں صرف پارسائی پرورش پاۓ
بے حیائی پرورش نہ پاۓ اور جان لیں کہ انسان اپنے جسم و جان سے جو کام لیتا
ھے اللہ تعالٰی اُس کام سے با خبر ہوتا ھے اور آپ ایمان لانے والی عورتوں
کو بھی اِس اَمر کی تعلیم دیں کہ اگر گھر چاردیواری کے اندر و باہر اَچانک
ہی اُن کے شوہر ، اُن کے باپ ، اُن کے بھائی اور اُن کے بیٹے کے علاوہ کوئی
اَجنبی مرد اُن کے سامنے آجاۓ تو وہ بھی اپنے کُھلے دیدوں پر اپنی پَلکوں
کے پردے ڈال لیا کریں اور وہ اِس ہنگامی صورتِ حال میں اپنے دوپٹوں کو بھی
اپنے سروں سے سینوں تک پھیلا لیا کریں اور وہ اپنے جسمانی بناؤ سَنگھار کے
اُن آثار کو بھی ظاہر نہ کیا کریں جن آثار کا ظاہر کرنا یا ظاہر نہ کرنا
اُن کے اختیار میں ہو اور اِس وقت وہ اپنے سامنے کے جسم کے سامنے آنے والے
جسم کے بالائی حصے پر بھی اپنی چادر طرح ڈال کر رکھا کریں ، مزید براں یہ
کہ اُن کی آرائشِ جسم و لباس اُن کے شوہر ، اُن کے والد ، اُن کے شوہر کے
والد ، اُن کے بیٹوں ، اُن کے شوہر کے بیٹوں ، اُن کے بھائیوں کے بیٹوں ،
اُن کی بہنوں کے بیٹوں ، اُن کے پاس آنے جانے والی عمر رسیدہ عورتوں کے
عُمر رسیدہ مردوں اور اُن کے گھر میں مُستقل یا غیرمُستقل طور پر کام کرنے
والے ملازموں اور عورتوں کے پردہ و بے پردگی سے بے خبر بچوں کے سوا کسی اور
پر ظاہر نہ ہو اور مُسلم معاشرے کی یہ عورتیں زمین پر اِس طرح پر زور سے
اپنے پیر مار کر بھی چلنے سے گریز کیا کریں تاکہ اِن کے کھنکھاتے زیورات کی
چَھلک چَھنک دُور تک جاکر کسی غیر متوجہ شخص کو اُن کی طرف متوجہ نہ کر سکے
اور آپ اِن سب مُسلم مردوں اور اِن سب مُسلم عورتوں کو اِس اَمر کی بھی
تلقین کردیں کہ وہ سب کے سب اپنے سب معامالاتِ حیات کے حل کے لیۓ اللہ کے
اَحکامِ نازلہ کی طرف آئیں اور اضطرابِ حیات سے نجات پا جائیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اَندھیرے میں ایک انسان کا دُوسرے انسان کو دیکھنا نہ دیکھنا ایک برابر
ہوتا ھے اِس لیۓ اِس بات کو سمجھا جانا اور سمجھ کر یاد رکھا جانا چاہیۓ کہ
قُرآنِ حکیم نے اٰیاتِ بالا میں مُسلم مرد و زن کے لیۓ ایک دُوسرے کو
دیکھنے اور نہ دیکھنے کے جو روشن اَحکام صادر کیۓ ہیں وہ اُس تاریک ماحول
کے اَحکام نہیں ہیں جس تاریک ماحول میں وہ ایک دُوسرے کے سامنے آئیں تو ایک
دُوسرے کو دیکھنے کے بعد بھی نہ پہچان پائیں بلکہ اللہ تعالٰی کے یہ روشن
اَحکام اُس روشن ماحول کے اَحکام ہیں جس روشن ماحول میں اگر وہ مرد و زن
حادثاتی طور پر ایک دُوسرے کے سامنے آجائیں تو وہ ایک دُوسرے کو پہچان بھی
سکیں اور ایک دُوسرے کے خوش صورتی و بدصورتی سے مُتاثر و مُتنفر بھی ہو
سکیں اِس لیۓ تعالٰی نے پہلے مُسلم معاشرے کے مردوں کو حُکم دیا ھے کہ اگر
اُن کے مُسلم مرد و زن کے اِس اجتماعی مُسلم معاشرے میں اَچانک ہی اُن کی
ماں ، اُن کی بہن ، اُن کی بیوی اور اُن کی بیٹی کے علاوہ کوئی اَجنبی عورت
اُن کے سامنے آجاۓ تو اُس ہنگامی صورتِ حال میں وہ اپنے آوارہ دیدوں پر
اپنی پلکوں کا پردہ ڈال لیا کریں اور گھر کے اندر و باہر کی ہر ایک جگہ پر
اپنے جسم و جان کے ہیجان پیدا کرنے والے اُن اعضاۓ جسم کو اپنے لباسِ جسم
میں چُھپا کر رکھا کریں جو خود اُن کو یا اُن کا جسم دیکھنے والے کسی
دُوسرے انسان کو جنسی بے راہ روی کے لیۓ برانگیختہ کر سکتے ہیں ، مُسلم
معاشرے کے مُسلم مردوں کو دیۓ جانے والے اِن روشن اَحکام کے بعد اللہ
تعالٰی نے مُسلم معاشرے کی مُسلم عورتوں کو بھی یہی اَحکام دیۓ ہیں کہ اگر
اُن کے گھر کے اندر یا اُن کے گھر کے باہر اُن کے شوہر ، اُن کے والد ، اُن
کے شوہر کے والد ، اُن کے بھائی اور اُن کے بیٹے کے علاوہ اَچانک کوئی
اَجنبی مرد اُن کے سامنے آجاۓ تو وہ بھی اپنے کُھلے دیدوں پر اپنی پَلکوں
کے پردے ڈال لیا کریں اور اگر وہ گھر سے باہر ہوں تو اپنے جسمانی بناؤ
سنگھار کے اُن آثار کو بھی چُھپانے کی کوشش کیا کریں جن آثار کا چُھپانا
اُن کے اختیار سے باہر نہ ہو ، مزید براں یہ کہ اُن کی آرائشِ جسم و لباس
اُن کے باپ ، اُن کے شوہر ، اُن کے شوہر کے باپ ، اُن کے بیٹوں ، اُن کے
شوہر کی اُن سے پہلی یا اُن کے بعد کی یا اُن کے ساتھ موجُود ہونے والی
بیویوں سے پیدا ہونے والے بیٹوں ، اپنے بھائیوں کے بیٹوں ، اپنی بہنوں کے
بیٹوں ، اپنے گھر آنے جانے والی عُمر رسیدہ عورتوں کے عُمر رسیدہ مردوں ،
اُن کے گھر میں مُستقل اور غیر مُستقل طور پر کام کاج کرنے والے ملازموں
اور عورتوں کے پردہ و بے پردگی سے بیخبر بچوں کے سوا کسی اور مرد پر اُن کے
جسم و لباس کی آرائش و زیبائش ظاہر نہیں ہونی چاہیۓ ، اِس پر مُستزاد یہ کہ
مُسلم معاشرے کی یہ عورتیں زمین پر اِس زور سے پیر مار کر چلنے سے بھی
احتراز کیا کریں تا کہ اِن کے پائل کی جَھنکار دُور تک نہ جاۓ اور اُن سے
دُور دُور چلنے والے آوارہ خیال لوگ اِن کے درشن کے لیۓ اِن کے اَریب قریب
آنے کی کوشش نہ کریں ، قُرآنِ کریم نے اپنی جس اصطلاح پر اِن معاشرتی مسائل
بُنیاد کھڑی کی ھے وہ اصطلاح "غُضِ بِصر" ھے جس کا مفہوم انسان کا دل کے
ایک مضبوط ارادے کے ساتھ اَجنبی عورت کی حلقہِ نگاہ میں آنے والی چال ڈھال
اور اُس کے مرکزِ نگاہ بننے والے خط و خال سے اپنی نگاہ کو اتنی جلدی
جُھکانا یا ہٹانا ہوتا ھے کہ مردِ دیدہ ور کا ضمیر بھی مُطمئن ہوجاۓ اور
اُس عورت کو بھی یہ احساسِ شرمندگی نہ ہو کہ کسی اَجنبی نظر نے ناجائز طور
پر اُس کے جسم کا جائزہ لے لیا ھے ، قُرآن کا یہ حُکم جو اِس مرد کے لیۓ ھے
قُرآن کا وہی حُکم اُس عورت کے لیۓ بھی ھے جس کی کسی اَجنبی مرد پر نظر پڑے
لیکن عُلماۓ روایت نے "غُضِ بَصر" کی اس اصطلاح سے جو معروف مفہوم اخذ کیا
ھے وہ مرد کا نگاہ جُھکا کر چلنا ھے جو ایک استمراری عمل کا حامل مفہوم ھے
اور جس کا معنٰی دائمی طور پر نگاہ جُھکا کر رکھنا اور دائمی طور پر نگاہ
جُھکا کر چلنا ہوتا ھے لیکن عملی طور پر مرد و زن میں سے کسی کا بھی نگاہ
جُھکا کر رکھنا اور نگاہ جُھکا کر چلنا مُمکن نہیں ہوتا اور قُرآن بھی
انسان کو ہرگز کوئی ایسا حُکم نہیں دیتا جس پر عمل کرنا انسان کے لیۓ مُمکن
نہیں ہوتا ، قُرآنِ کریم نے اِس باب میں مرد و زن کو جو حُکم دیا ھے اُس کا
ایک پہلو انسان کا ارادہِ دل اور دُوسرا پہلو انسان کی احتیاطِ نگاہ ھے
لیکن جب تک انسان قُرآن کے اِن اَحکام پر عمل نہیں کرتا تب تک انسان میں
قُرآن کی مطلوبہ آسُودہ دلی اور مطلوبہ آسُودہ نگاہی پیدا نہیں ہوتی اور
مُسلم معاشرے میں یہ آسُودہ دلی و آسُودہ نگاہی اِس لیۓ بھی پیدا نہیں ہوتی
کہ مُسلم معاشرہ قُرآن کے آسمانی نظام سے کٹا ہوا اور زمین کے اُس شیطانی
نظام سے جُڑا ہوا ھے جس شیطانی نظام میں انسان کو تَخلیق سے تدفین تک یہی
ایک تعلیم دی جاتی ھے کہ اُس کے ایک بار نماز پڑھنے سے ، اُس کے ایک بار
نیاز دینے سے ، اُس کے ایک بار روزہ رکھنے سے اور اُس کے ایک روز ایک پنج
سُورہ پڑھنے سے اُس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اِس لیۓ مُسلم معاشرے کے
جُملہ بزرگ و برخور دار اِس یقین کے ساتھ نظر بازی فرماتے ہیں کہ فجر کی
نماز پڑھنے سے اُس کے شب کے گناہ معاف ہوچکے ہیں اور عشاء کی نماز پڑھنے تک
اُس کے دن گناہ بھی معاف ہوجائیں گے اِس لیۓ اپنے ایک عمل سے اپنے دُوسرے
عمل تک کیوں نہ دل کھول کر دل پشوری کر لی جاۓ لیکن حقیقت یہی ھے کہ جتنی
نمازیں پڑھ لی جائیں ، جتنی بھی زکاتیں دے دی جائیں ، جتنے بھی روزے رکھ
لیۓ جائیں ، جتنے حج کر لیۓ جائیں ، جتنے بھی عُمرے کر لیۓ جائیں ، جتنے
بھی پنج سورے پڑھ لیۓ جائیں ، جتنے بھی آبی و آتشی چِلّے کھینچ لیۓ جائیں
اور جتنی بھی لمبی لمبی تسبیحات کے جتنے بھی لمبے لمبے ورد وظیفے فرمالیۓ
جائیں ؏
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کُچھ بھی نہیں
|