#العلمAlilm علمُ الکتاب (((( سُورَةُالنُور ، اٰیت 21 تا
29 )))) اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰا
یھاالذین
اٰمنوا لا تتبعوا
خطوٰت الشیطٰن و
من یتبع خطوٰت الشیطٰن
فانهٗ یامر بالفحشاء والمنکر و
لولافضل اللہ علیکم ورحمتهٗ مازکٰی
منکم من احد ولٰکن اللہ یزکی من یشاء و
اللہ سمیع علیم 21 ولایاتل اولواالفضل منکم
والسعة ان یؤتوااولی القربٰی والمسٰکین ولیعفوا و
لیصفحوا لاتحبون ان یغفراللہ لکم واللہ غفوررحیم
22 ان الذین یرمون المحصنٰت الغٰفلٰت المؤمنٰت لعنوافی
الدنیا والاٰخرة ولھم عذاب عظیم 23 یوم تشھد علیہم السنتہم
وایدیہم وارجلھم بما کانوایعملون 24 یومئذ یوفیھم اللہ دینہم الحق
ویعلمون اللہ ھوالحق المبین 25 الخبیثٰت للخبیثین والخبثون للخبیثٰت و
الطیبون للطیبٰت اولٰئک مبرءون ممایقولون لہم مغفرة ورزق کریم 26
یٰالھاالذین
اٰمنوالاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتٰی تستانسوا وتسلموا علٰی اھلھا ذٰلکم
خیر لکم لعلکم
تذکرون 27 فان لم تجدوافیھا احدافلاتدخلوھا حتٰی یؤذن لکم وان قیل لکم
ارجعوا فارجعوا
ھو ازکٰی لکم واللہ بما تعملون علیم 28 لیس علیکم جناح ان تدخلوا بیوتا غیر
مسکونة فیہا متاع
لکم واللہ یعلم ماتبدون وما تکتمون 29
اے ایمان دار لوگو ! شاہراہِ حیات پر چلتے ہوۓ شیطان کے نقشِ قدم پر اپنا
قدم رکھ کر مت چلا کرو ، جو لوگ شیطان کے نقشِ قدم پر قدم رکھ کر چلتے ہیں
تو شیطان اُن کو اللہ کے اَحکامِ نازلہ سے ہٹانے اور غیر اللہ کے اَحکامِ
باطلہ پر چلنے اور چلانے کی تعلیم دیتا رہتا ھے ، اگر اللہ تعالٰی کا فضل
تُمہارے حال میں شاملِ حال نہ ہو تو تُم میں سے کوئی بھی شیطان کی اِس چال
اور شیطان کے اِس جال سے نہیں بچ سکتا لیکن یہ تو تُم پر اللہ کا فضل ہی ھے
کہ تُم شیطان کی اِس شیطانی چال اور شیطان کے اِس شیطانی جال سے بچے ہوۓ ہو
، اِس کی وجہ یہ ھے کہ تُم میں سے جو انسان شیطان کی اِس شیطانی چال سے
بچنا چاہتا ھے تو اللہ تعالٰی اُس کو شیطان کی اِس شیطانی چال اور شیطان کے
اِس شیطانی جال سے ضرور بچا لیتا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی تُمہارے دل کی ہر
ایک استدعا کو جانتا اور تُمہاری زبان کی ہر ایک دُعا کو سمجھتا ھے ، تُم
میں جو لوگ مالی فضیلت کے مالک ہیں وہ اپنے گرد و پیش میں رہنے والے مالی
بَدحال کے باعث ایک ہی جگہ پر رُکے پڑے درد مندوں کا بہر حال خیال رکھا
کریں ، اُن کی کوتاہیوں کو نظر کیا کریں اور اُن کو حوصلہ مندی کی تلقین
بھی کرتے رہا کریں ، تُم یہ اعمالِ خیر کرو گے تو اللہ تعالٰی تُمہاری بشری
لغزشوں سے درگزر کرے گا اور ہماری معاشرتی تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق
ہو چکی ھے کہ جو لوگ سادہ دل عورتوں کی سادہ دلی سے فائدہ اُٹھاتے اور اُن
کو رُوحانی و جسمانی طور پر کوئی تکلیف پُہنچاتے ہیں تو وہ دُنیا و آخرت
دونوں میں اللہ کی دُھتکار پِھٹکار کے حق دار ہو تے ہیں ، جب اِن لوگوں کے
حساب و احتساب کا دن آۓ گا تو اِن کے خلاف اِن کی اپنی زبانوں اور اِن کے
اپنے جسموں اور جانوں کی گواہی لی جاۓ گی اور اِن کی اپنی گواہی پر اِن کو
اِن کے اِن جرائم کی سزا دی جاۓ گی اور اُس وقت اُن کو یقین آجاۓ گا کہ
اللہ تعالٰی نے اپنا سَچا وعدہ ثابت کر دیا ھے لیکن اُس روز اُن کا یہ
ایمان و یقین اُن کو کوئی فائدہ نہیں پُہنچا سکے گا ، یاد رکھو کہ بُری
عورتیں بُرے مردوں کے لیۓ اور بَھلے مرد بَھلی عورتوں کے لیۓ خالق کی
تَخلیقِ فطرت کے وہ مُتوازن جوڑے ہوتے ہیں جو ایک دُوسرے میں اپنے لیۓ ایک
کشش پاتے ہیں اور اُسی کشش کے باعث ایک دُوسرے سے قریب تَر ہو جاتے ہیں اور
بُرے لوگ بَھلے لوگوں پر جو بُہتان لگاتے ہیں وہ بُہتان اُن کی اسی غیر
فطری پسند و ناپسند کے زُمرے میں آتے ہیں اور جو لوگ فطرت کے اصولوں اور
ضابطوں کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ خطا بخشی کے حق دار ہوتے ہیں اور وہ اللہ
تعالٰی سے عزت و شان کی روزی پاتے ہیں ، انسانی مزاج و معاشرت کی یہ فطری
تفریق اِس اَمر کی متقاضی ھے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لاچکے ہیں وہ اپنے
گھروں کی طرح بِلا تکلف دُوسرے لوگوں کے گھروں میں اُس وقت تک داخل نہ ہوا
کریں جب تک کہ وہ ایک مناسب طریقے کے مطابق اُن کو اپنی طرف سے سلامتی کا
پیغام نہ دے دیں اور جب تک کہ وہ اُن سے باقاعدہ اجازت نہ لے لیں ، اگر اُن
گھروں میں اُن کے مالک موجُود نہ ہوں تو وہ اُن گھروں میں تانک جھانک کیۓ
بغیر لوٹ جایا کریں اور اگر اُن گھروں کے مالک اُس وقت اُن کے ساتھ ملنے سے
انکار کردیں اور کسی وقت آنے کو کہیں تو تُمہارا ملاقات کے لیے اصرار کرنا
مناسب عمل نہیں بلکہ واپس ہو جانا ہی مناسب عمل ھے لیکن اُن خالی گھروں میں
تُم سَستانے کے لیۓ جا سکتے ہو جن میں کوئی اور نہ رہتا ہو اور تُم نے اُن
گھروں میں کسی وقت اپنا کُچھ سامان رکھا ہوا ہو ، یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی
تُمہارے دلوں میں چُھپے ہوۓ ارادوں کو بھی جانتا ھے اور تُمہارے ظاہر ہونے
والے ظاہری اعمال کو بھی دیکھتا ھے اِس لیۓ تُم اللہ تعالٰی کے اِن تمام
اَحکام پر صدقِ دل کے ساتھ عمل کرو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
جس طرح زمین پر قائم ہونے والے ہر انسانی معاشرے کی اپنی کُچھ انسانی
اَقدار ہوتی ہیں جن اَقدار کا وہ انسانی معاشرہ انسان کو پابند بنانا چاہتا
ھے اسی طرح زمین پر قائم ہونے والے قُرآنی معاشرے کی بھی اپنی کُچھ دینی و
رُوحانی اقدار ہوتی ہیں جن اَقدار کا قُرآن انسان کو پابند بنانا چاہتا ھے
اور اِس سُورت کی اِن اٰیات میں قُرآنِ کریم انسان کو اپنی جن اقدار کا
پابند بنانا چاہتا ھے اُن اقدار کا پابند بنانے سے پہلے وہ انسان کو فطرت
کا یہ اصول یاد دلانا چاہتا ھے کہ انسان عام طور جس راستے پر عادتاً چلتا
رہتا ھے اُس راستے پر تو انسان بِلا تکلف و بِلا تکان چلتا ہی رہتا ھے لیکن
انسان کو جب کسی نئے پر چلنا ہو تا ھے تو وہ زیادہ تر دُوسرے چلنے والوں کو
دیکھ کر چلتا ھے اور جس راستے پر زیادہ لوگ چل رھے ہوتے ہیں وہ بھی اُسی
راستے کو درست راستہ سمجھ کر اُسی راستے پر چلتا رہتا ھے اِس لیۓ اٰیاتِ
بالا کی پہلی اٰیت میں قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم پر ایمان لانے اور
قُرآنی اَحکام پر عمل کرنے والے انسان کو سب سے پہلے یہ بتایا ھے کہ وہ
شاہراہِ حیات پر چلتے ہوۓ سب سے پہلے ایک اصول کے طور پر یہ بات طے کرلے کہ
وہ جس شاہراہِ حیات چل رہا ھے اُس شاہراہِ حیات پر اُس کے ساتھ اور کون کون
چل رہا ھے ، اُس کے اُٹھتے قدم کس کے ساتھ اُٹھ رھے ہیں اور اُس کے چلتے
قدم کس کی متابعت میں کس کے پیچھے چل رھے ہیں اور اِس کے بعد قُرآنِ کریم
انسان کو یہ بتاتا ھے کہ انسان شاہراہِ حیات کے جس جس راستے پر چل رہا ہوتا
ھے شیطان بھی اُس کو بہکانے اور بہٹکانے کے لیۓ اُس راستے پر اُس کے ساتھ
ساتھ ہی چل رہا ہوتا ھے اِس لیۓ انسان کو قُرآنِ کریم کے قُرآنی راستے پر
چلتے ہوۓ قدم قدم پر یہ دیکھتے رہنا چاہیۓ کہ اُس کو اِس راستے سے ہٹانے کے
لیۓ کہیں کوئی شیطان بھی تو اُس کے ساتھ نہیں چل رہا ھے اور اگر چل رہا ھے
تو وہ اُس کی پہچان یہ ھے کہ شاہراہِ حیات پر جہاں پر جو شخص اُس کو قُرآن
کے نقشِ راہ کے سوا کوئی دُوسرا نقشہِ راہ دکھاۓ تو وہ جان جاۓ کہ یہی وہ
شیطان ھے جو اُس کو قُرآن کے راستے سے ہٹانے کے لیۓ آیا ھے لیکن شیطان کبھی
کبھی انسان کو قُرآن کے راستے سے ہٹانے کے لیۓ کوئی دُوسرا راستہ نہیں
بتاتا ھے بلکہ انسان کے راستے پر کُچھ ایسے مُزین نشاناتِ راہ لگا دیتا ھے
کہ جن مُزین نشاناتِ راہ کو دیکھ کر انسان قُرآن کے راستے سے ہَٹ کر اُن
مُزین نشانات کی طرف بڑھ جاتا ھے اِس لیۓ اِس اٰیت میں انسان کو یہ بھی
بتایا گیا ھے کہ ہر شاہراہِ حیات پر آنے والا ہر وہ نقشِ راہ جو قُرآن کے
نقشہِ راہ سے مُختلف ھے وہ شیطان کا نقشِ قدم ھے اور جو انسان شیطان کے
نقشِ قدم پر چلتا ھے تو شیطان اُس کو قُرآن کے قُرآنی اَحکام سے ہٹاکر اپنے
شیطانی اَحکام پر لگا دیتا ھے ، اٰیاتِ بالا میں اِس پہلی بات کے بعد
قُرآنِ کریم نے دُوسری بات یہ بتائی ھے کہ شیطان انسان کو سَنگ دلی بھی
سکھتا ھے تاکہ ایک انسان دُوسرے انسان پر ظُلم کر کے قُرآنِ کریم کے
اَحکامِ محبت سے دُور ہوجاۓ اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے انسان کو یہ ھدایت کی
ھے اگر اُس کی مالی صورتِ حال مُناسبِ حال ھے تو وہ انسانی معاشرے کے مجبور
و بے کس انسانوں کی مالی مدد کرتا رھے تاکہ اُس کے دل کے لطیف جذبے بھی
لطیف رہیں اور اُس کے مالِ حلال سے ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی پُوری ہوتی
رہیں ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں انسان کو جو تیسری بات سمجھائی ھے
وہ یہ ھے کہ شیطان انسان کو سب سے زیادہ انسان کے جنسی و جذباتی حوالے سے
اُکساتا ھے اور اُس کے لیۓ ایسے مواقع پیدا کرتا ھے کہ جن مواقع کو موجُود
پاکر انسان اپنے خُداد وسائل سے انسانی معاشرے کی سادہ دل عورتوں کو اپنے
کسی بُہتان و الزام کا نشانہ بناتا اور اُن کو تنگ کر کے اپنی طرف براری کی
طرف لاتا ھے اور قُرآنِ کریم کہتا ھے کہ جو لوگ یہ غیر اخلاقی کام کرتے ہیں
وہ دُنیا و آخرت دونوں میں ایک رُسواکُن سزا پاتے ہیں ، قُرآنِ کریم اٰیاتِ
بالا میں جو چوتھی بات بتاتا ھے وہ یہ ھے کہ انسانی معاشرے کے بَھلے لوگ
عموما معاشرے کے بَھلے لوگوں سے اور انسانی معاشرے کے بُرے لوگ عموما
معاشرے کے بُرے لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں اِس لیۓ بَھلے لوگوں کو انسانی
معاشرے کے بَھلے لوگوں کے ساتھ تعلقِ خاطر رکھنا چاہیۓ تاکہ اُن میں خیر و
بَھلائی آۓ اور وہ بُرائی سے بچے رہیں اور قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں
انسان کو پانچویں بات یہ سکھائی ھے کہ جب تُم اپنے عزیز و اقارب یا اپنے
دوست و اَحباب کے گھروں میں آتے جاتے ہو تو شیطان اُس وقت بھی تُمہارے آس
پاس رہ کر تُم کو گُم راہ کرنے کی کوشش کرتا ھے اِس لیۓ تُمہارا کسی انسان
کے ساتھ چاھے کتنا ہی مضبوط رشتہ کیوں نہ ہو تُم اپنے گھر کی طرح اپنے
دوستوں اور عزیزوں کے گھروں میں درانہ وار داخل نہ ہوجایا کرو بلکہ تُم جس
کے گھر پر جاؤ پہلے اُس کے گھر کے دروازے پر دستک دو ، پھر اُس گھر کے مالک
کو اپنی طرف سے سلامتی کی دُعا دو ، پھر اُس سے اُس کے گھر میں داخل ہونے
کی باقاعدہ اجازت لو اور اُس کے بعد اُس کے گھر میں اپنا قدم رکھو ، اگر
تُمہارا وہ دوست اور عزیز اُس وقت تُم کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت
نہ دے تو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے گھر میں داخل ہونے کے لیۓ قدم نہ
بڑھاؤ ، اگر اُس وقت تُمہارا وہ عزیز دوست اپنی کسی مصروفیت کی بنا پر تُم
سے ملنا نہ چاھے تو تُم ہَٹ دھرمی کے ساتھ اُس کے دروازے کے سامنے کھڑے نہ
رہو بلکہ فورا ہی وہاں سے واپس آجاؤ کیونکہ اہلِ معاشرہ کے ساتھ مناسب تعلق
رکھنے کا یہی ایک مناسب طریقہ ھے ، اگر تُم اِس مناسب طریقے کو فراموش کرو
گے تو شیطان تُمہارے تعلقات میں ایسی بہت سی پیچیدہ گرہیں پیدا کردے گا کہ
تُم ایک دُوسرے کے جانی و ایمانی دُشمن بن جاؤ گے !!
|