قربانی اور تعمیر معاشرہ

عشرہ " ولیال عشر" و " تلک عشرتہ کاملہ " پورے انوارات و برکات کے ساتھ تمام مسلمانان عالم پر سایہ فگن ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان اس عشرہ کی فضیلت و برکات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ اس عشرہ میں صاحب استطاعت مسلمانوں پر اللّٰہ تعالیٰ کے دو بڑے احکامات ( حج اور قربانی ) کی ادائیگی فرض اور واجب ہے۔ یہ دونوں احکامات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کی یادگار ہیں۔ جس کی تجدید حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمائی اور حضرت ابراہیم علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت کےلیے تا قیامت اپنی امت پر ، اپنی سنت کی اتباع کی صورت میں لازمی قرار دے دیا۔

دس ذی الحجہ کو تمام مسلمانانِ عالم حضرت ابراہیم علیہ وسلم کے بیٹے کی قربانی کی یاد میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سنت طریقے کے مطابق اللّٰہ کے حضور اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمان کے مطابق اس روز (عید کے دن) اللّٰہ کے ہاں اہراق دم ( خون بہانے ) یعنی قربانی کرنے کے عمل سے بڑھ کرکوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اس کے فضیلت کے بارے میں اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل پیش کی جاسکتی ہے۔

اس مبارک عمل ( قربانی کرنے ) کے حوالے سے تمام لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہوتا ہے، جس پر ایک قربانی کرنا واجب تھی لیکن وہ متعدد ( نفلی ) قربانیاں کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک تو زیادہ قربانیاں کرنا زیادہ موجب ثواب و برکات ہوگا اور دوسرا یہ کہ اس صورت میں غریب اور نادار طبقہ ، جس نے اپنی قربانی نہیں کی ہوتی ، اس کو گوشت مل جاتا ہے جو کہ انتہائی اجرو ثواب کا باعث ہے۔
دوسرا گروہ وہ ہوتا ہے جو قربانی کے لیے سب سے اعلی اور مہنگا جانور خریدتے ہیں۔ جس کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اللّٰہ کی راہ میں سب سے عمدہ اور قیمتی چیز کی قربانی پیش کی جائے۔اور اسی کو زیادہ فضیلت والا عمل سمجھتے ہیں۔

دونوں گروہوں کے دلائل اور ثبوت اپنی اپنی جگہلیکن اسلام نے ہمیں ہر کام کے کرنے میں راہ اعتدال اختیار کرنے اور درمیانی راستے پر چلنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے تو فرمایا : " اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں ، نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے" ۔ کیونکہ غیر معتدل کام غیر فطری ہوتا ہے اور غیر فطری کام کبھی بھی مؤجب فضیلت و ثواب نہیں بن سکتا۔

اس حوالے سے اب راہے اعتدال کیا ہے ؟

پہلے گروہ کو چاہئے کہ وہ اپنی قربانیوں کے تعداد نصف کر لے، یعنی اگر ایک قربانی کرنا واجب تھا اور وہ دو کر رہا ہے ، تو ایک ہی پر اکتفا کر لے۔ اسی طرح اگر تین یا چار کر رہا ہے تو دو قربانیاں کرلے۔اگر اس سے زیادہ ہیں تو ان کو بھی اسی حساب پر قیاس کرلے۔

دوسرے گروہ کو چاہیے کہ وہ قربانی کےلیے اوسط درجے کا جانور خریدے۔ یعنی نہ بہت زیادہ مہنگا جس کی بڑی بڑی بولیاں لگتیں ہوں اور نہ ہی بلکل سستا ، جس کی قیمت نارمل سے بھی کم ہو ، نہ زیادہ فربہ جو فربہ ہونے کی وجہ سے ہلنے جلنے کے قابل نہ ہو اور نہ ہی اتنا لاغر اور کمزور جو اپنی ضعف کی وجہ سے کھڑے ہونے سے بھی قاصر ہو۔

موجودہ دور میں اس رائے اعتدال کی منطق کی " ہم خرما و ہم ثواب " کے مصداق دو بڑے فائدے ہیں۔ ایک تو تکمیل فرائض ہوجائے گی جس پر (انشاء اللہ ) اللہ کے ہاں ثواب منتج ہوگا۔ اور دوسرا یہ کہ اس سے بچائی گئی رقم سے معاشرے کی تعمیر و ترقی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اس کا طریقہ کار یہ ہونا چاہیۓ کہ صاحب قربانی کو چائیے کہ وہ جن کو عید کے دن گوشت کا تحفہ دے کر خوش دیکھنا چاہتا ہے ان گھرانوں کے بچوں میں سے ، جو یا تو بھیک مانگتے ہیں یا مزدوری کرتے ہیں اور علم و فن حاصل کرنے سے کوسے دور ہیں ، ان میں سے حسب اپنے مالی طاقت کے ایک یا دو کو کوئی ایک فن سیکھانے کی ذمے داری لے لے۔ مثلاً کمپیوٹر کے سہ ماہی اور شش ماہی شارٹ کورسز ، الیکٹریشن کورس ، میکینکل کورس وغیرہ وغیرہ۔

اگر فی قربانی کی اوسط قیمت پچیس سے تیس ہزار لگا دی جائے تو اس رقم پر ایک بچہ آسانی کے ساتھ کوئی ایک کورس سیکھ سکتا ہے۔ آدھی قیمت اس کے کورس فیس پر لگا جائے گی اور آدھی قیمت اس کی کمائی کی صورت میں ان کے گھر والوں کو وقتاً فوقتاً دی جائے۔ تاکہ بچہ پوری یکسوئی کے ساتھ سیکھ سکے۔اور یہی بچہ کوئی فن سیکھ کر آگے جاکر اپنے سارے خاندان کا کفیل بن سکتا ہے ۔ اگر تھوڑی سے کوشش کی جائے۔

جن گھرانوں کے بچے نہیں ہے ، یا بچوں کو لینے کی صورت میں کوئی دوسرے مسائل رکاوٹ بن رہےہیں ، تو ایسی صورت میں ان کے بڑوں میں سے کسی کو پندرہ ، بیس ہزار میں سبزی ، فورٹ یا دوسری خوردنی اشیاء کا ٹھیلہ لگا کر دیں۔ یا کوئی چھوٹی سے ٹاپری وغیرہ لگوا کر دے دیں۔ اور باقی رقم سے ایک یا دو ماہ تک ان کو خرچ دیا کریں تاکہ ان کام اچھے طریقے سے قائم ہوسکے۔ ایک تو یہ کہ نقد رقم ان کے حوالے نہیں کرنی اور دوسرا یہ کہ ان کی نگرانی کرنی ہے ایک دو ماہ تک ۔ کیونکہ نگرانی کے علاؤہ یہ کام نہیں ہوسکتا۔ وہ تیار چیزوں کے عادی ہوتے ہیں اور محنت کرنے سے جی چراتے ہیں اس لیے پہلے ان کو محنت کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ شروع ہی میں ان کو اپنی مرضی پر چھوڑدینا نامناسب ہے اس کا نتیجہ صفر کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان حوصلہ افزائی بھی فرمائیں تاکہ وہ محنت کرنے سے دل برداشتہ نہ ہوں۔

یہ کام زرا محنت طلب ہے لیکن ناممکن بالکل نہیں۔ ہمارے صرف مالی قربانی دینے پر اکتفا نہیں کرنی چاہیے بلکہ جسمانی قربانی دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹنا چائیے۔

اس طرح غریب کا چولہا جلنا شروع ہوجائے گا۔ بے روزگاری کا جن کچھ درجے قابو میں آ جائے گا۔ اور معاشرے میںفنی مہارتیں رکھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا ۔ جس سے معاشرہ متوازن بن جائے گا۔ اور انہیں عوامل پر ہی کسی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔معاشرے کی تعمیر و ترقی اس لیے ضروری ہے کیونکہ ایک اچھے اور تعمیری معاشرے ہی میں ہم امن وسکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اور آگے بڑھنے کا سوچ سکتے ہیں۔

حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کو ایک دن خوش کرکے پورا سال در در ٹھوکریں کھانے پر چھوڑ دینا کوئی عقل مندی نہیں بے بلکہ ایک دن ترسا کر باقی زندگی رولانے سے بچا دینا اس سے سو گنا بہتر ہے۔
اس حوالے سے ابن الاسلام صاحب کا کیا زبردست قول ہے :
“ غریب کو کھانا دینے پر نہیں بلکہ کھانے خود کمانے کے قابل بنانے پر ہی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہے"

قلم کار ابن الاسلام


 

Muhammad Zubair
About the Author: Muhammad Zubair Read More Articles by Muhammad Zubair: 2 Articles with 1636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.