سب سے پہلے اپنے تمام قارئین کو عید الاضحی کی دلی
مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس دعا کیساتھ دست
دعا بلند کرتے ہیں کہ ہماری قربابیوں کو شرف قبولیت بخشے اور اسکے نتیجے
میں ہمیں اپنی انائوں اور ہٹ دھرمیوں کو بھی ذبح کرنے کی توفیق عطاء
فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ہم سے پہلے لوگ کہتے تھے کہ وہ کسی بڑے ادیب سائنسدان یا پھر کسی فلسفی یا
کسی صوفی کے دور میں زندہ ہیں اور یہ اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج ہم
سماجی ابلاغ کے دور میں زندہ ہیں، جس نے وہ ساری اہمیتیں لے لی ہیں جو ماضی
میں کسی ایک فرد یا جماعت کے پاس ہوتی تھیں۔ سماجی ابلاغ کا دور کسی بھی
طرح کی خبر کیلیے تیز ترین ذریعہ بن چکا ہے جہاں تصدیق کی ضرورت بھی باقی
نہیں رہتی اور معلومات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ ابھی کچھ وقت
پہلے تک کسی خبر کی اطلاع اپنے مخصوص اوقات میں موصول ہوتی تھی اور اسکی
تفصیل کیلیے اگلے دن کے اخبارات کا انتظار کرنا پڑتا اورخبر کسی خام مال سے
تیارکی گئی مصنوعات میں تبدیل ہوچکی ہوتی تھی۔ من گھڑت اور من چاہی معلومات
عام کی جاتی تھیں یا کی جاتی ہونگیں۔ آج معلومات اپنی تمام تر حقائق بمعہ
حرکات و سکنات سماجی ابلاغ کی زینت بنادی جاتی ہیں۔ جہاں معاشرہ بدترین
آگاہی کی زد میں آرہا ہے وہیں بے راہ روی کو بھی فروغ مل رہا ہے، بقول
شخصِ گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن بھی پس رہا ہے۔ یہ سماجی ابلاغ ہی ہے جس نے
اساتذہ کی جگہ بھی لے رکھی ہے، جس نے علماء و مشائخ و مفتیان کی جگہ بھی لے
رکھی ہے، جہاں ناقدین کی بھی ایک جماعت ہمہ وقت موجود رہتی ہے اور سب سے
بڑھ کر تمام رشتے دار اور حمائیتی بھی ہر وقت موجود ہوتے ہیں اس طرح سے ایک
والدین رہ جاتے ہیں جن کا کوئی نعمل بدل تاحال سماجی ابلاغ کو میسر نہیں
آسکاہے۔ عنوان سے ماخوذ ایک تحریر جو نظر سے گزری تو لکھے بغیر رہا نہیں
گیا کہ اپنے قارئین میں بھی اس خوبصورت تحریر کو تقسیم کروں، بہت ممکن ہے
کے سماجی ابلاغ پر بہت سارے اس تحریر سے مستفید ہوچکے ہوں لیکن پھر بھی ہم
نے اسے اپنی تحریروں میں شامل کرنے کے لیے اس مضمون کا حصہ بنایا ہے۔ تحریر
حرف با حرف منقول ہے ؛
دوڑ کے مقابلوں میں اختتامی لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ
عبدالمطیع سب سے آگے تھا، مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے اور اس نے
اپنی رفتار چھوڑنا شروع کر دی، اس کے بالکل پیچھے اسپین کا ایتھلیٹ "ایون
فرنینڈز” دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ عبدالمطیع غلط فہمی کی بنیاد پر
رُک رہا ہے تو اس نے اسے آواز دی کی دوڑو ابھی اختتامی لائن کراس نہیں
ہوئی، عبدالمطیع اس کی زبان نہیں سمجھتا تھا اس لیے اسے بالکل سمجھ نہ آیا
کہ فرنینڈز کیا کہہ رہا ہے اور یہ بہترین موقع تھا کہ فرنینڈز اس سے آگے
نکل کے دوڑ جیت جاتا مگر سپینش ایتھلیٹ "ایون فرنینڈز” نے عجیب فیصلہ کیا،
اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کر اختتامی لائن سے پار کروا دیا۔
تماشائی اس سپورٹس مین سپرٹ پر دنگ رہ گئے، "ایون فرنینڈز” ہار کے بھی ہیرو
بن چکا تھا۔
ایک صحافی نے بعد میں فرنینڈز سے پوچھا تم نے یہ کیوں کیا؟
فرنینڈز نے جواب دیا "میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں
کوئی دوسرے کو اس لیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے”
صحافی نے پھر پوچھا "مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا”
فرنینڈز نے جواب دیا”میں نے اسے جیتے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت چکا تھا، یہ
دوڑ اسی کی تھی”
صحافی نے اصرار کیا” مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے”
فرنینڈز نے اس کی طرف دیکھا اور بولا” اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا ؟ اس میڈل
کی کیا عزت ہوتی؟
میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی؟”بیشک اخلاقی اقدار نسل در نسل منتقل
ہوتی ہیں، فرنینڈز کی ماں یقیناً ایک بہترین ماں ہوگی۔
"ماں قوم کی استاد ہوتی ہے”
فرانسیسی جرنیل نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا کہ "تم مجھے اچھی ماں دو میں
تمہیں اچھی قوم دوں گا۔”
واقعہ اپنی تمام وضاحتیں خود پیش کر رہا ہے خصوصی طور پر مشہور زمانہ
فرانسیسی جرنیل نپولین بونا پارٹ کے تاریخی الفاظ تم مجھے اچھی ماں دو میں
تمھیں اچھی قوم دوں گا۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے تمام خواتین کو یہ آگاہ
کرنا ہے بلکہ یاد دہانی کرانی ہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے یا کسی معاشرے نے
خواتین کو اتنے حقوق نہیں دئیے جتنے اسلام نے دئیے یہ اسلام ہی تو ہے جس نے
زندہ دفن ہونے والے بچیوں کو زندگیاں بخشی ہیں اور کوئی شک نہیں کہ ان
بچیوں کی اولادیں ہیں جو اسلام کا پرچم بلند کئے چلے آرہے ہیں۔ میری وہ
مائیں بہنیں بیٹیاں جو آج عفت و عصمت کی نیلامی کے لیے بازاروں میں دستیاب
ہیں، خدارا آنکھیں کھولیں اور اپنی تاریخ کی ورق گردانی کریں نہیں تو قران
مجید کو کھولیں احادیث کا مطالعہ کریں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے اس
جملے پر کے عورتوں کا پہناوا مردوں کو دعوت گناہ دیتا ہے پر شور کرنے والے
مسلمان ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ جملہ عمران خان نہیں اسلام کہتا ہے، قابل
احترام قارئین کیا کھلا گوشت کتوں کیلیے دعوت کا سامان نہیں ہوتا، جو ایسے
ہی حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ جب اسلام عورت کو اسکے حقوق دینے کا مرد کو
پابند کرتا ہے اور تنبہ کرتا ہے تو کیا اسلام عورت کو دئے گئے مقام کی
مرہون منت اچھی نسلوں کی توقع نہیں کرتا دیکھائی دیتا۔ تاریخ گواہی دے رہی
ہے کہ اسلام کی ترویج عظیم مائوں کے مرہون منت ممکن ہوسکی اور وقت کے
بدلائو کی نظر ہوتے وقت کیساتھ بدلتی مائوں نے اسلام کے میدانوں کو سونا
بلکہ ویران کرکے رکھ دیا ہے۔ نپولین کی بات اس لیے گونج بنی ہوئی ہے کہ وہ
جرنیل تھا اور جسے اسلام کی بھی خوب سمجھ تھی۔
مغرب نے مرد کو فکرمعاش دے کر دنیا کی بھول بھلیاں میں الجھایا تو دوسری
طرف آسائشوں کی ہوس نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے رکھ دیا
ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری خواتین سب جان کر بھی انجان بنی ہوئی ہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کے کہیں ان میں شامل نا ہوجائیں کہ جن کے لیے اللہ رب
العزت نے کہا ہے کہ جن کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے پھر انہیں کسی حق بات
کی سمجھ نہیں آتی۔ جب تک وقت میسر ہے اصلاح کے دروازے کھلے ہیں، حقائق کی
روشنی میں فیصلہ آپ نے خود ہی کرنا ہے اور فیصلے کیلیے اللہ اور اللہ کے
رسول ﷺ کی تعلیمات ہمارے درمیان موجود ہے۔
|