مٹی کا مزدور

ڈاکٹر شاکرہ نندنی - پُرتگال

زندگی کی تجارت میں آخری سودا ہوتا ہے کہ روٹی ختم ہو جائے تو نوکری کر لو، سو میں نے بھی مزدوری شروع کی، اور اب میں ایک میں مٹی کی کان کا مزدور ہوں، کام ختم ہوجانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے، ہمارے نگران ہمارے جوڑ جوڑ الگ کر دیتے ہیں، پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے، ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں، پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا، ہوتے ہوتے ایک ایک رواں کسی نہ کسی اور کا ہوجاتا ہے، خبر نہیں میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوئے مزدوروں میں کتنے کان بیٹھنے سے مرگئے ہوں گے، مٹی چرانے کے عوض زندہ جلا دئیے گئے ہوں گے۔

مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے، مٹی کی کان میں پانی پرپابندی ہے، پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کر کے اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، اگر نگرانوں کو معلوم ہوجائے کہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا، تو ہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے، اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے۔

مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے، کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے، میں بھی آگ کی چار دیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں، کوئی بھی مزدوری آگ کی چار دیواریوں کے بغیر نہیں ہوسکتی، مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے، کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے، اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی، مٹی ایسے ہی دن چرائی جاسکتی ہے
میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا، اور تحقیق کروں گا کہ کان میں آگ کس طرح لگتی ہے
اور کان میں آگ لگاؤں گا اور مٹی چراؤں گا۔

اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لئے ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ ، اور ایک چراغ بنادوں اور چراغ کے لئے آگ چراؤں گا، آگ چوری کرنے کی چیز نہیں مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لئے ہر چیز چوری کی جاسکتی ہے۔ پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہوجائے گا، آدمی کے لئے اگر مکان ہو، پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہوسکتا ہے، میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا، اور اگر روٹیاں کم پڑیں تو روٹیاں چراؤں گا۔

ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے، بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا اور اس سے باہر بھی نہیں، میں اپنے بنائے ہوئے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا اور اس سے باتیں کروں گا میں اس سے مٹی کی دکان کی باتیں نہیں کروں گا، مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جاکر بھی کرتے ہیں، میں اس سے باتیں کروں گا گہرے پانیوں کے سفر کی اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا تو وہ بھی لگائوں گا، اس طرح اس سے محبت کی باتیں کروں گا، اُس لڑکی کی، جسے میں نے چاہا اور اس لڑکی کی بھی، جسے وہ چاہے گا، میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔

میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا، جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں اور وہ ان بیجوں کو میرے لئے لے آئے گا جن کے اگنے کے لئے پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، میں روزانہ ایک ایک بیج مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا، بوتا جاؤں گا، ایک دن کسی بھی بیج کے پھوٹنے کا موسم آجاتا ہے، مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا اور پودا نکلنا شروع ہوگا، میرے نگران بہت پریشان ہوں گے، انہوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے، وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے۔

میں کسی بھی نگراں کو بھاگتے دیکھ کر اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگالوں گا کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہوجائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے۔ جب میری دہشت نکل جائے گی، میں آگے کی دیوار سے گزر کر مٹی کی کان کو دور سے جاکر دیکھوں گا، اور ایک ویران گوشے میں اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا، سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا جس کے اوپر ایک دریا بہہ رہا ہو۔

مجھے ایک دریا چاہئیے، میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر ایک پل خریدا تھا اور چاہا تھا کہ اپنی گزراوقات پل کے محصول پر کرے مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا، پھر میں نے پل بیچ دیا اور ایک ناؤ خرید لی مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی، پھر میں نے ناؤ بیچ دی اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی، پھر میں نے جال بیچ دیا، اور ایک چھتری خرید لی اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کرکے گزارہ کرنے لگا مگر دھیرے دھیرے مسافر آنے بند ہوتے ہوگئے، اور ایک دن جب سورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہوگیا تو میں نے چھتری بیچ دی اور ایک روٹی خرید لی۔ ایک رات یا کئی راتوں کے بعد جب وہ روٹی ختم ہوگئی تو میں نے نوکری کرلی اور ۔۔۔۔۔
نوکری مُجھے مٹی کی کان میں ملی !!!

 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 211890 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More