عید الاضحی کے موقع پر صفائی کا خیال رکھیں

عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرنا صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب اور سنتِ ابراہیمی ہے ،لیکن ارشادِ ربانی ہے:لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.نہ ان کا گوشت اﷲ کو پہنچتا ہے اور نہ خون،مگر تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔(الحج)اور تقوے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کام کرنا جس سے اﷲ خوش ہوتا ہو اور ان کاموں سے رکنا جس سے ا ﷲ کی ناراضگی کا خوف ہو،اس لیے قربانی کے مذہبی فریضے کی ادایگی کے بعد اس کے فضلہ جات و باقیات کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام کرنا مسلمانوں کا نہ صرف قومی بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے ۔

نیز ارشادِ رسولﷺ ہے :المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے ۔(بخاری)اس لیے قربانی کے موقع پر اس بات کا مکمل خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے ، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے یا صفائی میں خلل پڑے ۔چوں کہ یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ قربانی کے بعد جان ور کی باقیات کوگلیوں، سڑکوں اور میدانوں میں چھوڑنا نہ صرف بدبو اورتعفن کا سبب ہوتا ہے، بلکہ اس سے مختلف بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ اسلام میں طہارت کی طرح نظافت کی بھی بڑی اہمیت ہے، یہاں تک کہ امامت کی ترجیحات میں بھی الانظف ثوباً(پاکیزہ کپڑے والے) کو لیا گیا ہے،نیز حضرت نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:اﷲ تعالیٰ پاکیزہ ہیں، پاکیزگی پسند کرتے ہیں۔ سُتھرے ہیں، صفائی کو پسند کرتے ہیں۔ فیاض ہیں، فیاضی کو پسند کرتے ہیں۔ سخی ہیں، سخاوت کو پسند کرے ہیں۔ پس اپنے فناے دار کو صاف رکھو، اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو ۔(ترمذی)فناے دار اس حصۂ زمین کو کہتے ہیں جو گھر سے باہر دروازے کے سامنے ہو، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فناے دار تک کی نظافت مطلوب ہے۔ (خطبات حکیم الامت)

گذشتہ سیمینار میں فقہ اکیڈمی انڈیا نے اہلِ علم سے جن سوالات کے جوابات پر مقالات کا مطالبہ کیا تھا، من جملہ ان کے یہ بھی تھاکہ انسانی خوراک کا ایک اہم حصہ جان ور ہیں، جن سے لحمی غذا حاصل کی جاتی ہے ، جانورکے قابلِ استعمال اجزا کے حاصل کرنے کے بعد بعض اجزا جیسے خون، اوجھڑی وغیرہ ضائع کر دی جاتی ہیں، بہ مقابلہ نباتات کے جان وروں میں جلد تعفن پیدا ہو جاتا ہے اور یہ بہت تیزی سے فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔ گذشتہ زمانے میں اس کی وجہ سے کثرت سے ہیضے کی بیماری پھیل جایا کرتی تھی، خاص کر جب بہ یک وقت بہت سارے جانور ذبح کیے جائیں‘ جیسا کہ قربانی کے ایام میں ہوتا ہے ، تو ایسے مواقع پر اس کا کافی اندیشہ ہوتا ہے ، تو ذبیحے کے ایسے اجزا کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟ اس کے امکانی نقصان سے بچانے کے لیے حکومت کی کیا ذمّے داریاں ہیں اور خود ذبح و قربانی کرنے والے کی کیا ذمّے داری ہے ؟

جس کے جواب میں راقم الحروف نے لکھا تھا کہ شریعت کا حکم ہے کہ خود کو اور آس پاس کے لوگوں کو بچانے کے لیے قربانی کے بعدجانور کے خون وغیرہ کو احتیاط سے جمع کر کے کسی گڈھے میں دبا دینا چاہیے اور انھیں کھلی نالیوں میں ڈالنے سے احتراز کرنا چاہیے ۔بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کے جان ور کے خون وغیرہ کا خصوصی احترام ضروری ہے ،شریعت نے ان کی بھی اصلاح کر دی ہے ۔(مجمع الزوائد) اور ’فتاویٰ محمودیہ‘ میں قربانی کے خون و ہڈی وغیرہ کے متعلق مرقوم ہے کہ شریعت نے قربانی کے خون کے احترام کرنے کا حکم نہیں کیا، جس طرح دوسرے ذبیحوں کا خون ناپاک و نجس ہے ، اسی طرح قربانی کا خون بھی ناپاک و نجس ہے ، یوں ہی چھوڑ دیا جائے [یعنی اسے تبرک نہ سمجھا جائے ] اور گڈھے میں مٹی ڈال کر دبا دیا جائے ، ہڈیوں کو دفن کر دیا جائے۔(فتاویٰ محمودیہ)نیز اس کے امکانی نقصانات سے بچانے کے لیے حکومت کی ذمّے داری ہے کہ قربانی کے جانوروں کے فضلہ جات وغیرہ کو اکٹھا کر، انھیں ٹھکانے لگانے کا مناسب بندو بست کرے اور قربانی کرنے والے بھی اس کام میں حکومت کا تعاون کریں۔

 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347286 views (M.A., Journalist).. View More