ہم شاید سب کچھ بھول چکے ہیں

اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسے رسوم و رواج عام ہو گئے ہیں جن میں ایک نارمل و سفید پوش انسان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔حکمران ہمارے ویسے ہی ہیں جیسے ہم ہیں۔ جھوٹ، ملاوٹ،دغا ہماری عادات بن چکی ہیں۔ ایسے میں خدا تعالی کی طرف سے کچھ تہوار ہیں جو آئے تو ہمیں کچھ نہ کچھ سبق دینے کے لیے تھے مگر ہم نے انہیں اپنے علاقے اور شخصیت کے طور پر ایسا رنگ دیا ہے کہ اس میں اصل چیز کی خوشبو تک محسوس نہیں ہوتی۔

میرے دوستو! اگر ہم تاریخ کے اوراق سے گرد کو صاف کرتے ہوئے انہیں کھولیں اور ان کے مطالعہ میں دلچسپی ظاہر کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ عید الاضحیٰ کا مقصد کیا تھا؟ اگر آج بھی کسی شخص سے اس بارے سوال کیا جائے تو اس کے پاس کچھ رٹی رٹائی باتوں کے علاوہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہو گا کہ یہ غریبوں کی مدد کے لیے ہے یا پھر خدا کی رضا کے لیے۔

اگر دیکھا جائے تو آج یہ باتیں بالکل درست نظر نہیں آتی کیونکہ نہ ہی عیدالاضحیٰ میں صحیح طور پر غریبوں کی مدد کی جاتی ہے اور نہ ہی خالصتاً خدا کی رضا کے لیے کی جاتی ہے کیونکہ غریب آج بھی اسی طرح بھوک سے مر رہا ہے اس کے بچے بار بار اس سے بھوک کی وجہ سے سوال کرتے ہیں مگر وہ جواب نہیں دے پاتا کیونکہ وہ چپ چاپ اس معاشرے کے ہر فرد کو انفرادی طور پر بہت نزدیک سے دیکھ چکا ہوتا ہے اسے معلوم ہے اگر سو میں سے ایک بندہ کچھ دے بھی رہا ہے تو اس کی نیت کیا ہے؟ وہ اس کی غریبی کا مذاق اڑانے آیا ہے یا اپنی سخاوت کا ڈھونگ رچانے۔ جسے پورا سال غریب نظر نہیں آتا وہ اس دن بڑے فخر سے اپنے دوستوں کو غریبوں کا ہمدرد بننے کی ترغیب دے رہا ہوتا ہے۔ خیر چھوڑیئے چاہے جیسے بھی ہے قربانی ہو تو رہی ہے بنا مفہومِ قربانی کو سمجھے۔

اگر ہم دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالی کی خوشنودی و رضا کے لئے اپنی عزیز سے عزیز شے کی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔ آج ہمیں خود پر نظر دوڑانی چاہیے کہ اگر خدا کے دین پر وقت آجائے کیا ہم اس چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے جو کہ ہماری نظر میں بہت ہی پیاری چیز ہو۔ یہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ پیاری چیز ہمارا نفس ہے، ہماری اولاد ہے، بیوی ہے یا پھر یہ دنیا کی عارضی دولت ہے۔ اس میں اگر ہمیں تھوڑی سی بھی بے چینی ہوتی ہے تو ہم قربانی کے اصل مقصد کو ابھی تک نہیں سمجھ پائے ہیں۔ آج ہمیں مال کی محبت دن بدن تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ہم دن بدن اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل میں اندھے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں اس بات کی بالکل پرواہ نہیں ہے کہ خلق خدا مصیبت میں ہے۔ آج ہم نے وہ تمام اسباق بھلا دیے ہیں جو کہ خدا کی طرف سے اس قسم کے تہوار ہمیں مہیا کرتے ہیں۔ آج ہم خود کے لیے جی رہے ہیں نہ کہ خدا کے دین کی خاطر اور نہ ہی خلقت خدا کی خاطر۔

آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو قوم سال میں دو ایسے تہوار مناتی ہو جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق غریبوں، بے بسوں و لاچاروں کی بھلائی سے ہوتا ہے اور پھر بھی لوگ غربت میں رہ رہے ہوں۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قربانی کا جانور لیتے بھی جھوٹ سے ہیں اور بیچتے بھی جھوٹ ہی سے ہیں۔ ہم اس کو قربان بھی جھوٹ ہی کے طریقے سے کرتے ہیں اور اس کے گوشت کو بانٹتے بھی جھوٹ سے ہیں۔ ہم قربانی کا جانور لیتے بھی ان پیسوں سے ہیں جو کہ کسی غریب کا خون چوس کر ہم حاصل کرتے ہیں۔ وہ قربانی بھی حرام ہوتی ہے جو کہ حرام کے پیسوں سے ہو۔ پچھلے روز کی حالت ملاحظہ فرمائیے لوگ منڈی میں قربانی خریدنے کے لیئے گئے اور وہاں جاکر لڑکی کا ڈانس دیکھا جا رہا تھا۔ اتنی بھیڑ کے آپ دنگ رہ جائیں اگر تھوڑا گہرائی میں جائیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ جب یہ لوگ گھر سے نکلے تو خدا کو راضی کرنے کی خاطر قربانی لینے گئے لیکن پھر انہوں نے اپنی اصلیت دکھائی۔ ہم صرف برے نہیں ہم بہت برے ہیں۔ شاید ہمارے حالات خراب نہیں بہت خراب ہیں کیونکہ آج اگر آپ ایک بات اچھی کر رہے ہو تو دوسری جانب وہ لوگ ہیں جن کو نہ ہی سہی بات کا پتہ ہوگا وہ آپ کی غلطی نکالنے پر لگ جائیں آگے آپ کو غدار،منکر حتیٰ کہ کافر تک کہہ دیں گے مگر اپنا ایمان نہیں بتائیں گے۔ وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ خلق خدا کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ خدا کے دین کی خاطر کیا کر رہے ہیں؟

اگر آج ہم اپنے بزرگوں کی زندگیوں اور ان تہواروں کے مقاصد پر نظر کریں تو اس بات سے پردہ ہٹ جائے گا کہ ہم تھوڑا نہیں سب کچھ بھول چکے ہیں۔ یہ تہوار اسی طرح آتے رہیں گے اور ہماری زندگیوں پر ان کے کوئی اثرات مرتب نہ ہوں گے جب تک ان کے وجود میں آنے کے مفہوم سے آشنائی نہیں ہو گی۔ اگر ہم ان کے مفہوم کو سمجھ جائیں تو ہم بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم بھی دنیا کی اعلیٰ قوموں میں داخل ہو سکتے ہیں مگر موجودہ دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہیں۔

Arbaz Raza Bhutta
About the Author: Arbaz Raza Bhutta Read More Articles by Arbaz Raza Bhutta: 14 Articles with 20462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.