نور مقدوم کا وحشیانہ قتل۔قصور وار کون۔۔؟

اسلام آباد میں نور مقدوم کا وحشیانہ قتل عورت کی مادرپدر آزادی کے علمبرداروں کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے کہ جو کئی نسلیں بھلا نہیں پائیں گی ۔بظاہر یہ سانحہ رشتے سے انکار کا شاخسانہ بتایا جاتا ہے ۔لیکن اکثردیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے ظلم و تشدد کے پس منظر میں کوئی اور ہی انہونی کہانی ہوتی ہے کہ جو اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے پس منظر میں چلی جایا کرتی ہے ۔نورمقدوم کے قتل کے بعد ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ وہ کسی غیر محرم شخص کے پاس اکیلی گئی کیوں تھی۔؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں ۔انسان کی موت کا وقت مقرر ہے ۔اور نا چاہتے ہوئے بھی انسان اس جگہ پہنچ ہی جاتا ہے کہ جہاں اس کی موت آنا ہوتی ہے ۔بسا اوقات انسان خود سانپوں کے منہ میں جا گھستا ہے ۔۔خود سانپ صفت لوگوں کواپنے ساتھ رکھ لیتا ہے ۔جو بعدازاں اس کی موت کا سبب بنتے ہیں ۔
نورمقدوم بھی کئی ماہ سے ظاہر جعفر نامی دوست کے ساتھ رہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نورمقدوم اور ظاہر ذاکر کی تصاویر

اسلام آباد میں نور مقدوم کا وحشیانہ قتل عورت کی مادرپدر آزادی کے علمبرداروں کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے کہ جو کئی نسلیں بھلا نہیں پائیں گی ۔بظاہر یہ سانحہ رشتے سے انکار کا شاخسانہ بتایا جاتا ہے ۔لیکن اکثردیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے ظلم و تشدد کے پس منظر میں کوئی اور ہی انہونی کہانی ہوتی ہے کہ جو اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے پس منظر میں چلی جایا کرتی ہے ۔نورمقدوم کے قتل کے بعد ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ وہ کسی غیر محرم شخص کے پاس اکیلی گئی کیوں تھی۔؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں ۔انسان کی موت کا وقت مقرر ہے ۔اور نا چاہتے ہوئے بھی انسان اس جگہ پہنچ ہی جاتا ہے کہ جہاں اس کی موت آنا ہوتی ہے ۔بسا اوقات انسان خود سانپوں کے منہ میں جا گھستا ہے ۔۔خود سانپ صفت لوگوں کواپنے ساتھ رکھ لیتا ہے ۔جو بعدازاں اس کی موت کا سبب بنتے ہیں ۔

نورمقدوم بھی کئی ماہ سے ظاہر جعفر نامی دوست کے ساتھ رہ رہی تھی ۔۔اور اس بارے اُس کے والدین اور خود قاتل کے والدین کو اچھی طرح علم تھا ۔نور پر تشدد اور اسے قتل کئے جانے کے وقت بھی قاتل کے والدین رابطے میں تھے اور گھر کے ملازمین اور گارڈ بھی اس ظلم کے چشم دیدگواہ تھے ۔لیکن کسی نے نور کو بچانے کی ہمت نہ کی ۔شاہد ان ہٹے کٹے لوگوں کو اندازہ تھا کہ جنونی قاتل مداخلت کی صورت میں ان کی بھی جان لے لے گا ۔یوں نور کی جان چلی گئی ۔۔اورمیڈیا پر ایک بحث شروع ہو گئی ۔ہر دوسرا بندہ اس سانحہ کا ذمہ دار نور کو ٹھہرانے میں لگ گیا ۔والدین کو قصور وار گردانا جا رہا ہے ۔لیکن دیکھا جائے توبیٹا ہو یا بیٹی ۔جب دونوں ہی خود سر اوربدتمیزہو جائیں ، جب بچوں کو بغیر محنت کئے لاکھوں روپے ملنے لگیں تو ایسے میں کسی سانحہ کا ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں

ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب کسی کے پاس پیسہ آ یا تواس نے اُٹھ کر کسی کو قتل کر دیا یا کسی کی عورت (بیوی یا بیٹی )کوبھگا کر لے گیا ۔یہی وجہ ہے کہ قاتل چونکہ ایک دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس لئے اس نے یہ انتہائی اقدام اٹھایااور نور مقدوم پر بہمانہ تشدد کیا اور بعد ازاں اس کا سر ہی تن سے جدا کر ڈالا ۔۔وہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ پاکستان میں پیسے کے زور پر بڑے سے بڑا قاتل سزا سے بچ جاتا ہے ۔اگر اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیسہ اس کے کام نہیں آئے گا اور حکومت اُسے سرعام لٹکادے گی تو وہ کبھی جنونی نہ بنتا ۔۔رشتے سے انکار کوئی ایسا ایشو نہیں کہ انسان لڑکی کی جان ہی لے لے ۔شنید ہے کہ ظاہر جعفر سے نور سے 7لاکھ روپے کا تقاضا کیا ،جس پر اس سے گارڈ سے التجا کی کہ کم از کم 3لاکھ روپے کا بندوبست کرو اور یہ بات والدین کو بھی پتہ نہ چلے ۔جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ معاملہ رشتے سے انکار کی بجائے کچھ اور تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ نورمقدوم حد درجے کی بے وقوف ثابت ہوئی ،جس نے اس جنونی پر اندھااعتماد کیا ۔نور تو دنیا سے چلی گئی لیکن اس کے والدین کے دل پر جو گذر رہی ہوگی اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔اس سانحہ میں قصور وار کون تھا ۔۔۔؟یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس سانحہ کے بعد قاتل کے والدین کو جس طرح ہتھکڑیا ں لگا ئی گئی ہے ،یہ ذلت اور رسوائی انتہائی تکلیف دہ ہے ۔خدا ایسی اولاد کسی کافر کو بھی نہ دے جوکسی ماں یا باپ کوکچہری چڑھا دے ۔قاتل کو ڈوب مرنا چاہئے کہ جس نے اپنے بوڑھے والدین کو زندہ درگور کرکے رکھ دیا ہے،ادھرمقتولہ کی بے وقوفی نے اس کے والدین کو بھی جیتے جی مار ڈالا ہے ۔نور تو دنیا میں نہیں رہی لیکن وہ اپنے والدین کے لیے ساری زندگی کا ایک نہ ختم ہونے والا روگ چھوڑ گئی ۔سچ تو یہ ہے کہ مرنے والے کے دکھ سے تو وقت کے ساتھ ساتھ جان چھوٹ جاتی ہے لیکن دنیا والوں کی باتیں کسی پل چین نہیں لینے دیتیں ۔نورمقدوم کو والدین کی طرف سے ملنے والی آزادی کا شاخسانہ اس کی جان جانے کی صورت میں سامنے آیا ۔ایک غیر محرم سے ملنے اور اس کے ساتھ رہنے کی آزادی اسے والدین نے دی یاوہ اپنی روشن خیال ،ضد اور ہٹ دھرمی کی باعث اپنی مرضی ومنشاء سے اس کے ساتھ رہ رہی تھی ۔اور اگر وہ اس کی بد خصلت کو بھی جان گئی تھی تو اسے دوبارہ اس کے پاس نہیں جانا چاہئے تھا ۔یہ باتیں کافی غور طلب ہیں ۔شاہد انہی خرابیوں کے سبب وہ ایک ظالم انسان کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئی ۔

نور مقدوم کے ساتھ ہونے والا واقعہ مغربی سوچ و فکر رکھنے والی ان روشن خیال خواتین کے لیے ایک پیغام ہے کہ ''میرا جسم میری مرضی ''کا نعرہ عورت کی زندگی کوتحفظ نہیں دے سکتا ۔۔عورت کمزور ہے اور کمزور ہی رہے گی ۔ایک مرد کے سامنے عورت کی حیثیت کیا ہے ۔۔؟اس وقت جبکہ ایک مرد جنونی ہو جائے یا درندہ بن جائے تو اس کا ہاتھ روکنا کسی عورت کے بس میں نہیں ۔نور پر تشدد کے وقت ملازمین اور محلے کے گارڈز بھی موجود تھے لیکن کسی نے نور کی مدد نہ کی ۔اس لئے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ عورت مرد کے لیے ایک کھلونا ہے ۔مرد یہی چاہتا ہے کہ عورت اس کی انگلیوں پر ناچے ،جہاں عورت نے اپنے حق کی بات کی وہاں ہی مرد اسے اپنی توہین سمجھنے لگتا ہے ۔کتنی ہی خواتین مرد کو اپنا غلام بنانے کے چکر میں اگلے جہاں سدھار چکی ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ملکی قوانین میں سقم کی بدولت بیشتر قاتل عدالتوں سے بّری ہوجاتے ہیں ۔۔صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پپو نامی کیس میں مجرم کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا ۔زانیوں کوسرعام کوڑے مارے گئے تھے ۔لیکن اب سپر طاقتوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ''پھانسی'' کی سزا کو انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے قتل و غارت گری اور زیادیتوں کے واقعات معمول بن چکے ہیں ،نورمقدوم کے ساتھ ساتھ عثمان مرزا اور واجد نامی شخص کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔لیکن ان کیسزمیں عدالتیں کیا فیصلہ سناتی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔بچوں اور بچیوں سے زیادتی اور قتل کے پے در پے ہونے والے واقعات کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ظالم شخص سے رعایت نہ برتی جائے بلکہ موجودہ عدالتی سسٹم کی خامیاں دور کرنے کی بجائے ایسے کیسیز کے لیے فوری سزاؤں کا نظام اپنا یا جائے جائے تاکہ ایسے واقعات میں ملوث مجرم سرعام نشان عبرت بنائے جا سکیں ۔ ،سعودی عرب اور ایران کی طرح کم سے کم وقت میں قاتلوں کو چوہراہوں پر لٹکا کر نشان عبرت بنا دینا چاہئے ۔اس کے بغیرہم خواتین، بچوں اور بچیوںکو ان درندوں سے بچا نہیں پائیں گے ۔پولیس اورعدلیہ کو بھی چاہئے کہ وہ ظالموں کے لئے نرم گو شہ رکھنے کی بجائے انہیں سزا دینے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔پولیس کی ملی بھگت سے اکثر کیسز کو خراب کردیا جاتا ہے ۔جس کی بناء پر عدالتوں کے لیے انصاف کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔اب تک کتنے ہی لوگ قتل اور ظلم و زیادتی کے باوجود عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں اسی طرح بے شمار لوگ مقتول کے ورثاء سے پیسوں کے عوض راضی نامہ کرکے بری ہو جاتے ہیں ۔۔حکومت اس قسم کے واقعات میں راضی نامے والا آپشن ختم کر دے اور خود اپنی ریاستی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلانے کو یقینی بنائے ۔تاکہ ظالموں کوعلم ہو کہ قتل کی صورت میں معافی نہیں ملے گی ۔اسی صورت اس قسم کے جرائم کی روک تھام ممکن ہے ۔ورنہ ہر ظلم کے بعد میڈیا پر انصاف کی دہائی دینے اور معاشرے کا ننگ اتارنے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔میڈیا اپنی ریٹنگ بڑھاتا رہے گا، مظلوم قتل اورظالم و بدکردار عناصر بری ہوتے رہیں گے اس صورت میں معاشرے کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہم سب ہوں گے ۔۔ان حالات میں وطن عزیز کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک اسلا می فلاحی مملکت بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا ۔

 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115437 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.