محترم جناب وزیراعلی خیبر پختونخواہ و وزیر کھیل خیبر پختونخواہ محمود خان صاحب
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
راقم اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہے کہ کھیلوں کے میدان سے وابستگی ' کوریج کی بناء پر اب تک میرے اثاثے کیا ہے ' میرے بیوی بچے بشمول داماد کس ملک میں کھیلوں کے دنیا میں فراڈ کرکے باہر نکل گئے ہیں.یا کتنے صحافی کھیلوں کے میدان سے وابستہ ہیں اور ان کے اثاثے آج سے بیس سال پہلے کیا تھے اور آج وہ کس حال میں ہیں. سب سے پہلے یہ احتساب راقم سے شروع کیا جائے اور پھر اس کا دائرہ کار تمام سرکاری ملازمین جو اپنے آپ کو صحافی اور سپورٹس رپورٹر کہلواتے ہیں اور مراعات لیتے ہیں ان کا بھی کیا جائے ' اور یہ احتساب صرف انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نہ کرے بلکہ نیب ' ایف آئی اے ' آئی بی سے بھی صوبے میں کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کیا جائے تاکہ ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ہو جائے. |
|
السلام علیکم !
امید ہے کہ ساون کے موسم میں آپ کی طبیعت ٹھیک ہوگی اور پشاور کے موسم کو بھی سوات کی خوشگوار موسم کی طرح آپ انجوائے کرتے ہونگے.چونکہ آپ کھیلوں کے وزارت کے انچارج وزیر بھی ہیں اس لئے کچھ گزارشات آپ کو پیش کرنی ہے تاکہ کھیلوں کی صورتحال صوبے میں بہتر ہو ' اور وزیراعظم کے وژن کے مطابق خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کو فروغ حاصل ہو. جیسا کہ حال ہی میں ٹوکیو اولمپک میں ہمارے کھلاڑیوں نے جس طرح اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس اعلی کارکردگی پر نہ صرف پاکستان سپورٹس بورڈ بلکہ کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشنز پر سوال بنتا ہے ' کھیلوں سے وابستہ بیورو کریسی کی پتہ نہیں کیا مجبوری ہے کہ وہ پی ایس بی اور کھیلوں کی ایسوسی ایشن و فیڈریشن پر بات کرنے یا ان کیخلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں. چونکہ آپ وزیراعظم عمران خان کی تبدیلی کے دعویدار بھی ہیں اور خود بھی کھیلوں کی وزارت سے دو مرتبہ وابستہ رہے ہیں اس لئے کچھ گزارشات آپ کی نذر ہے جس پر اگر عمل کیا جائے تو کسی حد تک ہمارے کھیلوں کے بدتر نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے . میرے کچھ سرکاری ملازمین پر مشتمل گروپ کے صحافیوں سمیت ایسوسی ایشنز و فیڈریشن کے کرتا دھرتائوں کو میرے سوالات برے لگتے ہیں جو میں ان کی کارکردگی پر اٹھاتا ہوں ' کیونکہ اس عمر میںراقم ننگے سچ کو پمپر پہنانے کا عادینہیں . اس لئے سب سے پہلے راقم اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہے کہ کھیلوں کے میدان سے وابستگی ' کوریج کی بناء پر اب تک میرے اثاثے کیا ہے ' میرے بیوی بچے بشمول داماد کس ملک میں کھیلوں کے دنیا میں فراڈ کرکے باہر نکل گئے ہیں.یا کتنے صحافی کھیلوں کے میدان سے وابستہ ہیں اور ان کے اثاثے آج سے بیس سال پہلے کیا تھے اور آج وہ کس حال میں ہیں. سب سے پہلے یہ احتساب راقم سے شروع کیا جائے اور پھر اس کا دائرہ کار تمام سرکاری ملازمین جو اپنے آپ کو صحافی اور سپورٹس رپورٹر کہلواتے ہیں اور مراعات لیتے ہیں ان کا بھی کیا جائے ' اور یہ احتساب صرف انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نہ کرے بلکہ نیب ' ایف آئی اے ' آئی بی سے بھی صوبے میں کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کیا جائے تاکہ ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ہو جائے.اور کرینگے ہو جائیگا کررہے ہیں جیسے بیانات کے بجائے " کارکردگی اور کھیلوں کی کرپشن" پر بھی بات ہو اور اس طرح کی خبریں سامنے آسکیں . ساتھ میں ایسے تمام میگزین/ اخبارات کو بھی چیک کیا جائے جن کی ڈیکلریشن کب کی ختم ہو چکی ہے اور نہ ہی کسی اشاعتی ادارے سے سالہا سال سے رجسٹرڈ ہیں ' نہ ہی کسی مقررہ حد تک چھپتے ہیں ' نہ ہی رجسٹرڈ ادارے ہیں.ساتھ میں اپنے ہی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اس حکمنامے پر بھی عملدرآمد کیا جائے کہ سرکار کی ملازمت کرنے والے " کوئی بھی صحافی "نہیں ہوگا کیونکہ مراعات دونوں جگہوں سے لینے سے برباد وتباہ حال حقیقی معنوں میں صحافی ہے . محترم محمود خان صاحب! کھیلوں کی بربادی میں بڑا اہم ہاتھ کھیلوں کے مختلف فیڈریشن و ایسوسی ایشن کا بھی ہے آپ ان تمام ایسوسی ایشنز کا ریکارڈ چیک کروائیں کہ یہ کس قانون کے تحت کام کررہے ہیں ' رجسٹریشن ان کی کہا ں پر ہے ' گرانٹ کس سے لیتے ہیں اور گن کس کی گاتے ہیں ' صوبے میں پینتیس سے زائد ایسوسی ایشن کھیلوں کی کام کررہی ہیں جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کا الحاق کن سے ہے تو بتایا جاتا ہے کہ ہم آئی او سی کے چارٹر تلے کام کررہے ہیں اور ہم پر حکومتی قوانین لاگو نہیں ہوتے .جبکہ گرانٹس کیلئے یہی ایسوسی ایشن ` فیڈریشن حکومتی اداروں کے پیچھے آتے ہیں ' اگر کوئی ایسوسی ایشن کسی ادارے سے رجسٹرڈ نہیں تو پھر وہ کس حیثیت میںگرانٹ اور فنڈز لیتے ہیں اور فنڈز لیتے ہیں تو پھر ان کی آڈٹ کا طریقہ کار کیا ہے . یہ بڑا سوال ہے. اسی کے ساتھ یہ ریکارڈ بھی چیک کیا جائے کہ کتنے فیڈریشن و ایسوسی ایشن کھیلوں سے وابستہ افراد کے ہیں ' کتنے کھیلوں کے میدان میں رہے ہیں ' کتنے ایسوسی ایشن و فیڈریشن پر کب سے ایک ہی خاندان سے لوگ مسلط ہیں اور اس کی آڑ میں افغان مہاجروں سے پیسے لیکر انہیں باہر پاکستانی ہونے کے نام پر بین الاقوامی مقابلوں میں بھجوا کرکمائی کررہے ہیں. ان ایسوسی ایشن کے عہدوں پر کابینہ کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہے ' اور کب سے یہ لوگ مسلط ہیں . محترم وزیراعلی خیبر پختونخواہ! آپ تحقیقاتی اداروں سے یہ بھی کنفرم کروالیں کہ کئی دہائیوں سے کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر مسلط افراد کی آج سے بیس سال پہلے حیثیت کیا تھی ' پرانے موٹر سائیکلوں پر پھرنے والے آج لاکھوں کی گاڑیوں میں پھر رہے ہیں لیکن ان کے اپنے کھیل پر جمود طاری ہے ' کئی سالوں سے ان ایسوسی ایشنز نے کتنے کھلاڑی پیدا کئے ' انہیں کس مقام تک پہنچایا..اور یہ بھی چیک کیا جائے کہ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پر مسلط افراد کونسے این جی اوز سے وابستہ ہیں. یہ چند سوالات/ تحقیقات ہیں جو آپ اپنی حیثیت میں صوبے کی سطح پر کرسکتے ہیں رہی پاکستان سپورٹس بورڈ کی بات ' جن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کے کھلاڑی اولمپک میں کچھ بھی نہیں کرسکے اس کیلئے آپ وزیراعظم عمران خان کو یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ اٹھارھویں ترمیم کے حق میں قرارداد پاس کرنے والی سپیکر آج کونسے قانون کے تحت اٹھارھویں ترمیم کی خلاف ورزی کررہی ہیں اور صوبوں کیلئے فنڈز بھی نہیں دے رہی اور نہ ہی کھیلوںکی بہتری کیلئے کچھ کرسکی ہے. امید ہے کہ راقم کی گزارشات آپ کو بری نہیں لگی ہونگی اگر آپ اس معاملے میں سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کیلئے راقم بھی آپ کی مدد کرنے کیلئے حاضر ہے.
والسلام
مسرت اللہ جان
|