"جم‘ نیزم کا قصہ – 30 ملین کی سرجری"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
|
صوابی کے بام خیل میں 2022 میں ایک "عظیم الشان منصوبہ" مکمل ہوا۔ کہا گیا کہ یہ باسکٹ بال، والی بال اور بیڈمنٹن ہال ہے، مگر عوام نے اسے ایک ہی نام دیا: "جم‘ نیزم"۔ وجہ؟ وہاں بورڈ پر "جمنازیم" لکھنے کی ایسی تخلیقی کوشش ہوئی کہ اردو اور انگریزی دونوں زبانیں چیخ اٹھیں۔
اگر کبھی اردو کے بابائے زبان قبر سے جھانک لیں تو لازمی کہیں گے: "یہ کون سا آپریشن تھیٹر تھا جس میں اردو اور انگریزی دونوں کو خصی کر دیا گیا؟"
اس ہال پر تیس ملین روپے لگے۔ تیس ملین، یعنی اتنے پیسے کہ اگر عوام کو بانٹے جاتے تو پورا بام خیل کم از کم نئی جوتیاں خرید لیتا۔ مگر ہمارے ہاں کھیل نہیں، صرف منصوبے بنتے ہیں۔
افتتاح بھی عام بندے نے نہیں کیا، بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب نے۔ ربن کاٹا گیا، تصویریں بنیں، میڈیا آیا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ اب بام خیل سے اگلا مائیکل جورڈن نکلنے ہی والا ہے۔
لیکن ابھی کھیل شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ہال کو تالے لگ گئے۔ کھلاڑی آئے تو انہیں کہا گیا: "بھائی! بارش آگئی تھی، ہال خراب ہوگیا۔" اب سوال یہ ہے کہ بارش صرف اسی ہال پر کیوں نازل ہوئی؟ باقی صوابی تو خشک ہی رہا۔ لگتا ہے ہال اتنا نیچے بنایا گیا تھا کہ پانی براہِ راست کہتا تھا: "ذرا جگہ دو، میں بھی کھیلنا چاہتا ہوں۔"
پھر بہانہ نمبر دو آیا: "رنگ اڑ گیا ہے۔" اب بھائی! رنگ اڑا یا رنگ والے نے زیادہ پانی ملایا؟ کیونکہ دیواروں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے پہلی بارش میں ہی ہال نے "کلین شیو" کرا لی۔
خیر، بارش اور رنگ کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوا: ری ہیبلیٹیشن۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس ری ہیبلیٹیشن کا افتتاح بھی پھر سے اسد قیصر نے ہی کیا۔ یعنی پہلے بھی ربن کاٹا انہی نے، بعد میں بھی انہی نے۔ عوام سوچتی رہ گئی کہ شاید اس ہال کا اصل کھیل ہی "افتتاح" ہے۔ کبھی نیا افتتاح، کبھی پرانا افتتاح، کبھی مرمت کا افتتاح۔ جیسے کوئی ڈرامہ سیریل ہو جس کی ہر قسط کا نام ہو: "جم‘ نیزم ایپیسوڈ ون، ٹو، تھری"۔
اب عوام کے سوال ختم ہونے کا نام نہیں لیتے: "ہال پر تیس ملین کہاں لگے؟" جواب: "بارش خراب کر گئی۔" "دیواروں کا رنگ کیوں اڑا؟" جواب: "وہ بھی بارش نے کیا۔" "اب دوبارہ کتنے لگیں گے؟" جواب: "تقریباً تیس ملین۔"
یعنی ہال کھیلوں کے لیے نہیں بلکہ فنڈز کھانے کے لیے بنایا گیا۔ ہر دو سال بعد تالے لگاورپورٹ دو کہ خراب ہوگیا، نئے پیسے مانگ لو، اور پھر اسد قیصر سے ایک اور افتتاح کروا لو۔
ہال کی نگرانی سپورٹس انجینئرنگ ونگ نے کی تھی۔ ان کا کام کھیلوں کے لیے معیاری میدان بنانا ہے۔ مگر ان کا معیار دیکھ کر لگتا ہے جیسے "گلی محلے کے مستری" کو کہا گیا ہو کہ بس کھمبے کھڑے کر دو، باقی اللہ مالک ہے۔
رہی ڈیوٹی والوں کی بات، تو وہ زیادہ تر حکمران جماعت کے "ہم زلفی" مزے لے رہے ہیں۔ ہال پر بیٹھنے کے بجائے سیاسی تقریبات میں دکھائی دیتے ہیں۔ یوں ہال عوام کے لیے نہیں بلکہ سرکاری فائلوں اور تصویروں کے لیے کھولا گیا تھا۔
اب عوام دیکھتی ہے کہ ایک طرف کھلاڑیوں کے پاس گراونڈ آنے کے لیے پیسے نہیں، دوسری طرف 30 ملین روپے کے تالے پڑے ہیں۔ اور پھر مزید 30 ملین ری ہیبلیٹیشن پر لگنے ہیں۔ آخر یہ سب "کھیلوں کی ترقی" ہے یا "افتتاحی کھیلوں" کا نیا سلسلہ؟
بام خیل کا جم‘ نیزم اصل میں کھیل کا میدان نہیں بلکہ مزاحیہ داستان ہے۔ ایک ہال، دو افتتاح، تیس ملین کے تالے، بارش کے پانی کے کھلاڑی اور اڑتا ہوا رنگ۔ اور سب سے بڑھ کر، وہی افتتاحی ربن بار بار کاٹنے والے۔
اب اگر کل کو بورڈ پر لکھا ہو: "جم‘ نیزم – ری ہیبلیٹیشن اسپیشل ایڈیشن" اور پھر ربن کٹنے کی تصاویر وائرل ہوں، تو حیران نہ ہونا۔ کیونکہ یہاں اصل کھیل یہی ہے: "کھیل نہیں، افتتاح کرو"۔ یہ تھی کہانی "رنگ روڈ کے ورلڈ کپ" کی۔ طنز اپنی جگہ، لیکن اصل میں یہ ہمارے کھیلوں کے ساتھ ہونے والا تماشا ہے۔ #kikxnow #digitalcreator #content #sportsnews #Mojo #federation #associaton #kpk #kp #pakistan #musarratullahjan #digitalcreator |