"گولڈ میڈل کا نیا فارمولا: تین کھلاڑی، تین میڈل"


خیبرپختونخواہ کی ایک مارشل آرٹس فیڈریشن نے حال ہی میں کمال کا کارنامہ سرانجام دیا۔ جی ہاں، یہ وہی کارنامہ ہے جسے سن کر لگتا ہے کہ شاید سائنس کی کتابوں میں ایک نیا قانون شامل ہونا چاہیے:
“جہاں تین ہوں، وہاں تینوں ہی میڈلسٹ ہوتے ہیں”۔

ہوا یوں کہ بین الاقوامی مقابلوں میں جانے کے لیے ہر کھلاڑی سے تین سے چار لاکھ روپے بٹورے گئے۔ جی ہاں، تین لاکھ اگر آپ کے تعلقات اچھے ہیں، اور چار لاکھ اگر آپ "قابو میں آنے والے" کھلاڑی ہیں۔ فیڈریشن نے کھلاڑیوں کو بتایا کہ یہ پیسہ دراصل "قومی خدمت" ہے۔ آخر وطن کے لیے گولڈ میڈل لینا کوئی مذاق تو نہیں، اس کے لیے بینک اکاؤنٹ بھی خالی کرنا پڑتا ہے۔

اب اصل مزے کی بات یہ ہے کہ جس کیٹگری میں یہ کھلاڑی گولڈ میڈل جیتنے گئے تھے، اس میں صرف تین ہی کھلاڑی تھے۔ جی ہاں، تین۔ اب ذرا آپ ہی حساب لگائیں: پہلا نمبر گولڈ، دوسرا سلور اور تیسرا برانز۔ باقی بچا کون؟ تماشائی!

یعنی اگر کوئی چاہے تو "میڈل گارنٹی پیکیج" نکال سکتا ہے:

چار لاکھ روپے = گولڈ

ساڑھے تین لاکھ روپے = سلور

تین لاکھ روپے = برانز
یہاں میڈل کا تعلق محنت یا ٹریننگ سے نہیں بلکہ بینک بیلنس سے ہے۔ جس کی جیب بھاری، اس کا میڈل بھی بھاری۔

اب ذرا اس تضاد پر بھی غور کریں۔ ملکی سطح پر ان کھلاڑیوں کو کوئی جانتا تک نہیں۔ اپنے محلے میں اگر یہ چائے کے ہوٹل پر جا کر کہیں کہ "میں قومی کھلاڑی ہوں"، تو ہوٹل والا ان سے پوچھتا ہے: "بھائی کون سی ٹیم میں کھلتے ہو، کرکٹ یا پٹھو گرم؟" لیکن کمال دیکھیں، جب یہی کھلاڑی باہر جاتے ہیں تو گولڈ میڈل کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ جیسے کسی نے گوگل میپ پر "شارٹ کٹ ٹو گولڈ" لگا دیا ہو۔

پھر یہ سب تماشہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ان مقابلوں کے نام پر ڈائریکٹریٹ سے فنڈز بھی کھینچ لیے جاتے ہیں۔ یعنی ایک طرف کھلاڑی اپنی جیب سے لاکھوں روپے بھرتے ہیں، دوسری طرف ادارے کے فنڈز بھی صاف۔ یوں یہ کھیل کھلاڑیوں کے پسینے سے نہیں بلکہ جیبوں کے نوٹوں سے چلتا ہے۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ فیڈریشن کھیلوں کی نہیں بلکہ "کاروبار میڈل لمیٹڈ" کمپنی ہے۔ اشتہار بھی کچھ ایسا ہونا چاہیے:
“اپنی مرضی کا میڈل حاصل کریں، صرف چند لاکھ میں۔”
گارنٹی کے ساتھ، کیونکہ صرف تین کھلاڑی ہوں تو ہارنے کا کوئی امکان ہی نہیں۔

ذرا سوچیں، اگر یہ فارمولا تعلیم میں بھی لگ جائے تو کیا ہی مزہ ہو۔ تین بچے امتحان دینے جائیں، سب کو فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن ملے۔ ٹیچر بھی خوش، بچے بھی خوش، اور والدین کے نوٹ بھی کم نہ ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ظلم ہے، کیونکہ یہ سب کچھ کھیل کے نام پر ہمارے بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کھلاڑی دن رات محنت کرتے ہیں، لیکن فیڈریشن کے یہ "ماہرینِ تجارت" انہیں محنت سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا سکھاتے ہیں۔ یہاں تربیت یہ دی جاتی ہے کہ "کیسے بین الاقوامی کھلاڑی بننا ہے، وہ بھی جیب کے زور پر"۔

آخر میں ایک سوال رہتا ہے: اگر کل کو انٹرنیشنل سطح پر صرف ایک کھلاڑی شرکت کرے، تو پھر کیا ہوگا؟ جواب آسان ہے: وہ سیدھا گولڈ لے آئے گا، کیونکہ مقابلہ ہے ہی کس سے؟

شاید اگلا نعرہ یہ ہونا چاہیے:
"کھیل نہیں، نوٹ دو۔ گولڈ لو، خوش رہو!"
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 745 Articles with 616652 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More