"بین الاقوامی کھلاڑی اور رنگ روڈ کا ورلڈ کپ"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی حالت کچھ یوں ہے جیسے شادی میں وہ ماموں جو ہر وقت کہتے ہیں "میرے پاس تو پیسے ہی نہیں" لیکن تصویروں میں ہمیشہ سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈائریکٹریٹ کے پاس فنڈز نہیں، کھلاڑی نیشنل گیمز کھیلنے جائیں تو لاہور، کراچی یا اسلام آباد کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ مگر کمال دیکھیں، جب کوئی "اپروچ والا" کھلاڑی آتا ہے، تو بین الاقوامی ٹکٹ بھی ملتا ہے، ڈالر بھی نکلتے ہیں اور ساتھ میں "پاکستان زندہ باد" کے نعرے بھی۔
سال 2024–25 کا کارنامہ دیکھ لیں: صرف تین کھلاڑی، اور تقریباً چونسٹھ لاکھ روپے ہڑپ۔ وجہ؟ امریکہ میں "مقابلوں میں شرکت سمیت مختلف مقابلوں میں شرکت"۔ اب یہ مقابلے کہاں ہوئے، کس نے کروائے، اور ان کا معیار کیا تھا؟ اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ وہی مقابلے ہیں جن کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی ہمارے گاو¿ں کی سالانہ "رسی کشی ٹورنامنٹ" کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ گاو¿ں میں میلہ لگتا ہے اور یہاں "بین الاقوامی میلہ" کا ٹیگ لگایا جاتا ہے۔
اب کھلاڑیوں کی چالاکی دیکھیں۔ وہ کسی بھی کونے کھدرے میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں پہنچتے ہیں، اپنے کندھوں پر پاکستانی جھنڈا لپیٹتے ہیں، اور تصویر کھنچوا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں:"پاکستان کا نام روشن کیا، گولڈ میڈل جیتا"۔حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقابلہ اتنا بڑا ہوتا ہے جیسے رنگ روڈ کے فٹ پاتھ پر ہونے والا "فرنڈز ٹورنامنٹ"۔
اب سوال یہ ہے کہ جو کھلاڑی قومی سطح پر اپنے وزن کے حساب سے ایک راو¿نڈ نہیں کھیل سکتے، وہ بین الاقوامی سطح پر اچانک "محمد علی" اور "بروس لی" کیسے بن جاتے ہیں؟ سادہ سا جواب ہے: میڈل لینے والوں کی تعداد کم، شرکت کرنے والوں کی فیس زیادہ، اور "پیسے پھینک تماشا دیکھ" والا اصول۔ کمال تو یہ ہے کہ ان ہی "جعلی بین الاقوامی کامیابیوں" کی بنیاد پر وزیروں اور بیوروکریٹس کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے ہیں۔ وہاں سے فنڈز بھی نکلتے ہیں اور واپسی پر کھلاڑی "انٹرنیشنل ہیرو" کہلاتے ہیں۔ قومی ٹیم میں جگہ نہیں ملتی مگر سوشل میڈیا پر "چیمپئن" لکھا جاتا ہے۔
ہنسی کی بات یہ ہے کہ ماضی میں ایک بڑے افسر نے بھی اسی طرح کے مقابلے کا سرٹیفیکیٹ دکھا کر اپنی نوکری پکی کر لی تھی۔ اب آپ سوچیں کہ اگر نوکریاں بھی اسی حساب سے ملنی ہیں تو کل کو رنگ روڈ پر ہونے والا "منی میلہ" بھی سرکاری ریکارڈ میں "ورلڈ چیمپئن شپ" لکھا جائے گا۔اور تصدیق کون کرے؟ جب حکومت خود آپ کی ہو تو تصدیق کرنے والا کون ہوتا ہے؟ جس کی چھتری بڑی، اس کی کامیابی بھی بڑی۔ آج کل کا نیا فارمولا یہ ہے:"جس کی جیب بھاری، اسی کا میڈل بھی بھاری"۔
اصل کھلاڑی بیچارے حیران و پریشان ہیں۔ جو دن رات ٹریننگ کرتے ہیں، پسینہ بہاتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ رنگ روڈ کے مقابلوں کے میڈلسٹ لاکھوں کے فنڈز لے کر "بین الاقوامی کھلاڑی" بن رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے دل میں صرف ایک ہی سوال ہوتا ہے:"یہ کیا ہورہا ہے بھائی؟"
ادھر بعض فیڈریشن اور ایسوسی ایشن کے بعض حضرات کی حالت بھی کسی ڈرامے سے کم نہیں۔ زبان پر ہمیشہ ایک ہی جملہ: "ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں"۔ مگر گاڑیوں کی چمک دیکھیں، بنگلوں کا رعب دیکھیں، اور ہر تین ماہ بعد "کھیلوں میں شمولیت" کے بہانے غیر ملکی ٹور دیکھیں تو لگتا ہے کہ کھیل کم اور بزنس زیادہ ہے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب ہر فیڈریشن والے کے اثاثے بڑھ رہے ہیں، زمینیں نکل رہی ہیں، گاڑیاں آرہی ہیں، تو آخر یہ پیسہ آ کہاں سے رہا ہے؟ کھلاڑیوں کے پاس تو اتنے پیسے نہیں کہ وہ گراو¿نڈ تک پہنچ سکیں، اور ادھر یہ سب "میڈل بزنس" چل رہا ہے۔یہ کھیل کے نام پر ایسا مذاق ہے جو شاید صرف ہمارے ہاں ہی ممکن ہے۔ باہر دنیا میں آپ کو محنت، تربیت اور پرفارمنس کی بنیاد پر میڈل ملتا ہے۔ یہاں صرف شرط یہ ہے کہ "ڈالر یا روپے کتنا دیا؟"۔
ذرا تصور کریں، اگر کل کو صوبائی ڈائریکٹریٹ نے ایک فہرست مرتب کر لی کہ "ہمارے کھلاڑی کہاں ہیں اور کس پوزیشن پر ہیں"، تو شاید آدھے کھلاڑی پکڑے جائیں گے کہ یہ تو رنگ روڈ اور بڈھ بیر کے "چیمپئن" نکلے۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک جعلی مقابلوں کو بند نہیں کیا جاتا، اور جب تک فنڈز کے حساب کتاب پر نظر نہیں رکھی جاتی، اس وقت تک یہی حال ہوگا: قومی سطح پر کوئی کارکردگی نہیں، مگر بین الاقوامی سطح پر سب "چیمپئن"۔
یہ تھی کہانی "رنگ روڈ کے ورلڈ کپ" کی۔ طنز اپنی جگہ، لیکن اصل میں یہ ہمارے کھیلوں کے ساتھ ہونے والا تماشا ہے۔ #kikxnow #digitalcreator #content #sportsnews #Mojo #federation #associaton #kpk #kp #pakistan #musarratullahjan #digitalcreator
|