عدالتی اصلاحات وقت کی ضرورت

جمہوری نطام میں سب سے اہم چیز انصاف ہے اور ایسا عدالتی نطام ہے جس میں عام عوام کو انصاف مل سکے وہی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے جو انصاف کے نطام پر عمل پیرا ہو مغربی دنیا میں کفر کا نظام ہے لیکن وہاں انصاف ہونے کی وجہ سے وہ لوگ ترقی کر رہے ہیں۔

حضرت علیؑ کا فرمان ہے " کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں" لیکن افسوس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف ناپید ہے انصاف صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس پیسہ ہے یا جن کے پاس کوئی سفارش ہے غریب آدمی کے لئے انصاف نہیں ہے کوئی بھی ریاست جب قائم ہوتی ہے تو اس کے ایک آئین بنایا جاتا ہے جو کے ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان ایک ماہدہ ہوتا ہے 1973 کے آئین میں یہ بات لکھی گئی ہے کے ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کے ایک ایسا انصاف کا نظام ہوگا جو کسی شہری کو مذہب ، نسل ، زبان اور خطے سے قطع نظر انصاف فراہم کرے گا،لیکن یہ بات بھی عیاں ہے کے ملک پاکستان میں جب ایک کیس چلتا ہے تو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں وہ کیس ختم نہیں ہوتا
2017-18 کے عالمی انصاف پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس کے مطابق وہ ممالک جن میں انصاف کا نظام مثالی ہے ان کی ایک فہرست بنائی گئی، آپ کو یہ جان کر بلکل بھی حیرت نہیں ہوگی کے پاکستان کا نمبر 113 ممالک میں سے 105 ہے، جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھی سے آخر میں ہمارا نمبر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صرف سپریم کورٹ میں 40 ہزار کیس زیر التو ہیں، جب کے چاروں صوبوں کی عدالتوں کے کیس دیکھے جائیں تو ان کی تعداد 2 لاکھ سے زیادہ بنتی ہے اس میں بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ کیس زیر التو ہیں ججز کی تعداد کا کم ہونا، قوانین کا فرسودہ ہونا،رشوت کا ایسا نظام جو عدالت کے میں بیٹھے ہر شخص کو اپنی لپیٹ میں لئیے ہوئے ہے۔ مخالف پارٹی سے پیسے لے کر کیسوں کو سالوں زیر التو رکھنا بھی اس میں شامل ہے اس کے ساتھ پولیس کا کیسز میں پیش نہ ہونا یہ الگ ایک کہانی ہے۔

2006 میں جتنے کیس زیر التو تھے ان کی اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی تعداد اب تین گنا زیادہ ہوگئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کے ہم بہتری کی طرف نہیں جارہے۔ ایک عام کیس میں ضمانت کے لئے 8 جگہ رشوت دینی پڑتی ہے چاہے گیٹ پر کھڑا اہلکار ہو عدالت میں بیٹھا منشی ہو جج ہو ہر کوئی اپنا حصہ اپنا حق سمجھ کر لیتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کے یہ رشوت جہنم کا ایندھن ہے۔

ہمارے عدالتی نظام میں کوتاہیاں معاشی پہلو کے لحاظ سے بھی ملک کو بہت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ، پاکستان میں عدالتی طریقہ کار پیچیدہ ، لمبا اور مہنگا ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک ’انٹرپرائز سروے‘ نے بتایا ہے کہ 38 فیصد پاکستانی فرم عدالتی نظام کو کاروبار کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کے یہاں پر اگر ان کے خلاف کسی نے جھوٹا مقدمہ بھی کر دیا تو سالوں انہیں عدالتوں میں ذلیل ہونا پڑے گا، معاملہ عام عدالتوں سے ہوتا ہوا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جائے گا اور پھر اپیلوں میں سالوں لگ جانے ہیں۔

عام آدمی کی بات کریں تو سو میں سے 90 لوگ آپ کو یہی کہیں گے کے پاکستان میں انصاف کا نظام مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کے اس نظام کو اصلاحات سے بہتر بنایا جائے اور یکسر تبدیل کیا جائے ججز کی تعداد زیادہ کی جائے، سرکاری وکیلوں کی تنخواہ اور بونس ان کے کیس جیتنے سے مشروط کئیے جائیں تاکہ ان کی توجہ کیس جیتنے پرہو،غریب آدمی کو مفت سرکاری وکیل مہیا کیا جائے، عدالتوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کے وہ کیسز کو ایک مقرر وقت میں اپنے منطقی انجام تک پہنچائیں، سپیشل عدالتوں کا قیام کیا جائے جو کرپشن سے جڑے معمالات دیکھیں اور وہاں ججز کی تعداد اتنی ہو کے کوئی کیس رک نہ پائے، گواہوں کی حفاظت کا طریقہ طے کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کے کیسز کا ریکارڈ ڈیجیٹل ہو تاکہ پتہ چل سکے کے کونسا کیس کتنے عرصے سے چل رہا ہے اور ابتک فیصلہ کیوں نہیں ہوا۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ بھی کئی ایسے اقدامات ہیں جو کرنے کی وجہ سے انصاف پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالی پاکستان کا حامی و ناصر ہو : آمین

Noman Sarwar
About the Author: Noman Sarwar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.