عھدِ رسالت کے مو منینِ قُرآن و مُنکرینِ قُرآن !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنُور ، اٰیت 52 تا 54 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انما
کان قول
المؤمنین
اذادعواالی
اللہ ورسولهٖ
لیحکم بینھم ان
یقولواسمعنا واطعنا و
اولٰئک ھم الفلحون 51 ومن
یطع اللہ ورسوله ویتقه فاولٰئک
ھم الفائزون 52 واقسموابالجھد ایمانھم
لئن امرتھم لیخرجن قل لا تقسموا طاعة معروفة
ان اللہ خبیر بما تعملون 53 قل اطیع اللہ واطیعوا
الرسول فان تولوافانما علیه ماحمل وعلیکم ماحملتم
وان تطیعوا وتھدوا وما علی الرسول الّاالبلاغ المبین 54
اِس سے پہلی اٰیات میں نزولِ قُرآن کے زمانے کے اُن مُنکرینِ قُرآن کا ذکر ہوا تھا جن مُنکرینِ قُرآن کو جب اُن کے عدالتی مقدمات کے فیصلے سنانے کے لیۓ قُرآنی عدالت میں بلایا جاتا تھا تو وہ قُرآنی عدالت میں تو آجاتے تھے لیکن اُن مُنکرینِ قُرآن کا اُن قُرآنی فیصلوں کے بارے میں طرزِ عمل یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے حق میں جاری ہونے والے قُرآنی فیصلوں کو تو مان لیتے تھے لیکن اپنے خلاف صادر ہونے والے فیصلوں سے مُنحرف ہوجاتے تھے اور موجُودہ اٰیات میں یہ بتایا جا رہا ھے کہ اُس زمانے میں اُن مُنکرینِ قُرآن کے مقابلے میں وہ عاملینِ قُرآن مُسلم موجُود تھے جن کو جب بھی قُرآنی عدالت میں بلاکر کوئی فیصلہ سنایا جاتا تھا وہ کہتے تھے ھم نے اللہ تعالٰی کا جو حُکم اپنے کانوں سے سنا ھے اُس کو اپنے دل سے بھی قبول کرلیا ھے اور یہی وہ اطاعت شعار لوگ تھے جو اپنی جُھدِ حیات میں کامیاب ہوۓ تھے کیونکہ جو لوگ اللہ کی ناراضی اور سزاۓ ناراضی سے ڈرتے ہیں اور راستی اختیار کرتے ہیں تو وہ اپنی جُھدِ حیات میں ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں ، عھدِ نبوی کے یہ راست گو اور راست رَو لوگ اُس مُشکل زمانے کے مُشکل حالات میں بھی اپنی اطاعت کاری کے باعث اتنے سرفراز و سر بلند ہو چکے تھے کہ اِن کی معاشرتی قدر و منزلت کو دیکھ کر مُنکرینِ قُرآن بھی اُن کی طرح اُس مُسلم معاشرے میں سر فراز و سر بلند ہونے کے لیۓ اپنے ایمان و اطاعت کی جُھوٹی قسمیں کھاتے رہتے اور اللہ کے رسُول کو قسمیں کھا کھا کر اِس اَمر کا یقین دلاتے رہتے تھے کہ اگر اللہ کے رسُول کی طرف سے اُن کو جھادِ فی سبیل اللہ کا کوئی حُکم ملا تو وہ یہ حُکم سُنتے ہی ہَتھیار بند ہو کر فورا ہی اپنے گھروں سے نکل آئیں گے لیکن آپ اِن قَسمیں کھانے والے لوگوں سے صاف صاف کہہ دیں کہ تُم ھمارے سامنے اپنی دکھاوے سناوے کی یہ قَسمیں ہرگز نہ کھاؤ کیونکہ اللہ تعالٰی سے تُمہاری اطاعت کا کوئی مَخفی اَحوال مَخفی نہیں ھے ، وہ تُمہارے جُملہ خیالِ بد اور تُمہارے جُملہ اعمال سے باخبر ھے ، اگر تُم اِس قُرآنی ریاست میں ریاست کے اطاعت گزار باشندے بن کر رہنا چاہتے ہو تو خوشی سے رہو اور اگر تُم قُرآن کے قانُن سے رُوگردانی کر کے اپنی اِس منافقانہ اطاعت سے مُنحرف ہونا چاہتے ہو تو اِس میں بھی تُم آزاد ہو کیونکہ ھمارے رسول پر اَداۓ رسالت کا جو بار ھے وہ اپنے اُسی فرضِ منصبی کا ذمہ دار ھے اور تُم پر انکارِ قُرآن کا جو وبال ھے تُم بھی اپنے اُس وبال کے خود ذمہ دار ہو ، ھمارے رسُول کا کام صرف ھمارا پیغام پُہنچانا تھا جو اُس نے بِلا کم و کاست تُم تک پُہنچا دیا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے اِن قُرآنی اَحکام سے عھدِ رسالت کی قُرآنی حُکمرانی کا جو انسانی ناک نقشہ سامنے آتا ھے وہ یہ ھے کہ زمین پر قائم ہونے والی اُس پہلی قُرآنی ریاست میں جہاں قُرآنی اَحکام کے وہ وفادار اَفراد موجُود تھے جو قُرآن کے تمام فیصلوں کی دل و جان سے اطاعت کرتے تھے چاھے وہ فیصلے اُن کے حق میں آۓ ہوں یا اُن کے خلاف گۓ ہوں وہیں پر قُرآنی اَحکام کے وہ مُنکر و غدار بھی موجُود تھے جو اپنے حق میں جاری ہونے والے قُرآنی فیصلوں کو تو مان لیتے تھے لیکن اپنے خلاف صادر ہونے والے فیصلوں سے مُنحرف ہو جاتے تھے ، اٰیاتِ بالا کے اِن سیاسی و قانُونی اَحکام سے جو پہلی بات ھمارے سامنے آتی ھے اُس میں قُرآن کی قُرآنی ریاست کا پہلا قانُونی تقاضا یہ نظر آتا ھے کہ اُس قُرآنی ریاست میں قُرآن کے وہ تمام اَحکامِ اَمر و نہی نافذ کیۓ جائیں جن کو قُرآن انسان سے نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا ھے ، اٰیاتِ بالا کی رُو سے قُرآنی ریاست کا دُوسرا قانونی تقاضا یہ دکھائی دیتا ھے قُرآنی ریاست کے تمام عمّال و حُکام اُن تمام قوانین پر پہلے خود عمل کریں اور اُس کے بعد اہلِ ریاست کو اُن اَحکام پر کسی جسمانی یا زبانی تشدد کے بغیر عمل کرنے کی زبانی تلقین کیا کریں کیونکہ قُرآنی ریاست میں ریاست کا کوئی چھوٹا یا بڑا باشندہ قُرآن کے کسی حُکم سے مُستثنا نہیں ہوتا اور قُرآنی ریاست کا کوئی چھوٹا یا بڑا باشندہ قُرآنی عدالت سے سزا کا فیصلہ جاری ہونے سے پہلے راست کے کسی باشندے کو کوئی سزا دینے کا مجاز بھی نہیں ہوتا ، اٰیاتِ بالا سے قُرآنی ریاست کا تیسرا قانونی تقاضا یہ مُتبادر ہوتا ھے کہ قُرآن کے قانُونی اَحکام کو عملی و قانُونی طور پر ریاست کے اَعلٰی ترین قوانین کا درجہ دیا جاۓ اور قُرآن کے اَحکام پر انسان کے بناۓ ہوۓ کسی قانُون کو ترجیح نہ دی جاۓ ، اٰیاتِ بالا کے اَحکامِ بالا کے مطابق قُرآنی ریاست میں ریاست کے غداروں کے انسانی حقوق معطل کر کے اُن سے زندہ رہنے کا حق کبھی نہ چھینا جاۓ اور اگر کسی انسان کا غدار ہونا معاشرتی طور مشہور ہو جاۓ تو اُس کو سنبھلنے سُدھرنے کا اور سنبھل سُدھر کر ریاست کے قانُونِ اَعلٰی کے ساتھ عملی وفاداری کے اظہار کا موقع دیا جاۓ اور اگر اُس کا غدار ہونا کسی عدالتِ مجاز کے فیصلے سے صادر ہو جاۓ تو اُس مجاز عدالت کے فیصلے پر عمل کیا جاۓ بشرطیکہ اُس عدالت کا وہ فیصلہ قُرآن کے کسی حُکم کے خلاف نہ ہو اور اگر قُرآن کے وہ مُنکر بہر صورت قُرآن دُشمنی پر ڈٹے رہنا چاہتے ہوں تو اُن کو اُس وقت تک جان و مال کا تحفظ دیا جاۓ جب تک کہ وہ قُرآنی ریاست کو چھوڑ کر اپنی کسی پسند کی ریاست میں نہ چلے جائیں ، ریاست دینی ہو یا غیر دینی ہو دونوں میں معیاری اور غیر معیاری اَفراد ہمیشہ موجُود ہوتے ہیں کیونکہ کوئی بھی انسانی ریاست فرشتوں کی ریاست نہیں ہوتی لیکن یہ اَمر ہر ریاست پر لازم ہوتا ھے کہ وہ آخر دَم تک ریاست کے غیر معیاری اَفراد کی دینی و اخلاقی تربیت کرتی رھے اور اگر اصلاح و تربیت میں ناکام ہو جاۓ تو آخری چارہِ کار کے طور پر اُن منافق باشندگانِ ریاست کو اُس ریاست سے چلے جانے کا موقع دیا جاۓ ، اٰیاتِ بالا میں سلسلہِ کلام کی جو آخری اٰیت وارد ہوئی ھے اُس اٰیت کا سرنامہ ہی { اطیعوااللہ واطیعوا الرسول } کا وہ واضح و غیر مُبہم حُکم ھے جو حُکم اَمرِ لازم کے طور پر اِس اٰیت میں آیا ھے ، اطاعت کا معنٰی کسی کا کسی کی قولی و عملی اطاعت کرنا ہوتا ھے اور ایک نبی و رسول کی موجُودگی میں اُس نبی و رسول کی ذات ہی وہ واحد ذات ہوتی ھے جو اللہ تعالٰی کی قولی و عملی اطاعت کرتی ھے اور اَفرادِ اُمت اُس نبی و رسول کی قولی و عملی اطاعت کی اطاعت کرکے ایک ہی وقت میں اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت کرتے ہیں اور اُس نبی کے زمانے کے بعد اُس نبی کی غیر موجُود گی میں اُس کتاب میں لکھے اَحکام کی اطاعت کی جاتی اور کی جاسکتی ھے جو کتاب اُس نبی اور اُس رسول پر نازل ہوئی ہوتی ھے ، ایک مُسلم قوم اِس کتاب پر عمل کیۓ بغیر مُسلم قوم نہیں ہوتی اور ایک مُسلم ریاست بھی اِس کتاب پر عمل کیۓ بغیر ایک مُسلم ریاست نہیں ہو سکتی اور اُس قوم اور اُس ریاست کے اَفراد بھی عملی اعتبار سے مُسلم یا غیر مُسلم نہیں ہوتے بلکہ خالصتاً منافق اَفراد ہوتے ہیں اور اِس اعتبار اور اِس معیار کی رُو سے اِس وقت دُنیا کا کوئی مُسلم مُلک بھی ایک مُسلم یا کافر مُلک نہیں ھے بلکہ صرف ایک ایسا منافق مُلک ھے جس پر دن بہ دن ، ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال اُس کے جُرمِ منافقت کا کوئی نہ کوئی عذاب اپنی شکل بدل بدل کر آتا رہتا ھے اور اُس پر آنے والا سب سے بڑا عذاب یہ ہوتا ھے کہ اُس کو اُس عذاب کا علم ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ اُس مریض کی طرح ہوجاتا ھے جس مریض کو عمر بھر اپنے مرض کا علم نہیں ہوتا اور وہ مریض علاجِ مرض کے بغیر ہی مرجاتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559921 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More